یمن میں جنگ بندی پر عمل درآمد شروع، حدیدہ شہر میں طویل عرصے بعد سکون اور خاموشی

یمنی حکام کے مطابق جنگ بندی کے بعد حدیدہ میں گولیاں چلنے یا توپوں کے گولے داغنے کی آوازیں ختم ہو کر رہ گئی ہیں

1109529
یمن میں جنگ بندی پر عمل درآمد شروع، حدیدہ شہر  میں طویل عرصے بعد سکون اور خاموشی

یمن میں جنگ بندی ہوگئی، حوثی باغیوں اور عرب عسکری اتحاد کی حمایت یافتہ سرکاری فوج کے درمیان جھڑپیں ختم ہوگئیں۔

یمنی حکام کے مطابق جنگ بندی کے بعد حدیدہ میں گولیاں چلنے یا توپوں کے گولے داغنے کی آوازیں ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنی صدر عبدالربو منصور ہادی نے اپنی افواج کو حدیدہ شہر اور صوبے میں کسی قسم کی خلاف ورزی نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔

 ایران نواز حوثی ملیشیا نے بھی جنگی حالات بظاہر ختم ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ یہ فائربندی سویڈن کے قصبے ریمبو میں گزشتہ ہفتے کے دوران فریقین کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جنگ بندی کے بعد الحدیدہ میں گولیاں چلنے یا توپوں کے گولے داغنے کی آوازیں ختم ہوگئی ہیں۔

گذشتہ روز یمنی حکومت اور حوثیوں باغیوں کے درمیان طے ہونے والا معاہدہ ختم کیے جانے کی اطلاعات تھیں،جبکہ الحدیدہ میں سرکاری افواج اور حوثی جنگجوؤں میں جھڑپوں کی بھی خبریں سامنے آئیں تھی۔

خیال رہے کہ دو روز قبل سویڈن میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے امن مذاکرات میں دونوں فریقن کے درمیان کئی نکات پر اتفاق ہوا تھا جس کے بعد یمن میں گذشتہ کئی برسوں سے جاری جنگ کے ختم ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ یمنی حکومت اور حوثیوں کے درمیان سنہ 2016 کے بعد سے یہ پہلے امن مذاکرات ہیں جس کے بعد تین نکات پر اتفاق رائے کیا گیا ہے اگر کسی بھی فریق کی جانب سے کوتاہی یا لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا تو امن مذاکرات تعطلی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

س خانہ جنگی اور بیرونی حملوں کی وجہ سے یمن میں بچوں سمیت ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ملک میں اس دور کا بد ترین انسانی المیہ پیدا ہو چکا ہے۔

جمعے کو اس معاہدے کے نفاذ میں اس وقت تاخیر ہوئی تھی جب کچھ حملوں اور جھڑپوں کی خبریں سامنے آئی تھیں۔

ایک سعودی سفارتکار کے مطابق سعودی عرب اور اس کے اتحادی اس معاہدے کے حامی ہیں جس کے تحت فریقین اپنے فوجی حدیدہ سے نکال لیں گے تاکہ امداد وہاں لائی جا سکے۔

ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بھی اس معاہدے کو امیدا افزا قرار دیا تھا جبکہ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ اب امن کا قیام ممکن ہے۔

تاہم مبصرین نے اس وقت بھی خبردار کیا تھا کہ سویڈین میں امن کانفرنس میں سامنے آنے والے اس غیرمتوقع نتیجے کے باوجود بھی فریقین میں تناؤ پایا جاتا ہے۔

حدیدہ پر قبضے کے لیے جنگ کی وجہ سے یہاں کی بندرگاہ عملی طور پر بند ہوچکی ہے جس کی وجہ سے حوثیوں کے زیرِ قبضہ یمن کے شمالی علاقوں میں امدادی سامان پہنچ نہیں پا رہا ہے۔

یہ بندرگاہ ملک کی دو تہائی آبادی کے لیے ایک لائف لائن کی حیثیثت رکھتی ہے جو گزر بسر کے لیے درآمد شدہ خوراک، ایندھن اور ادویات پر انحصار کرتے ہیں۔

اس وقت یمن میں دو کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ یمنی باشندوں کو کسی نہ کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہے جبکہ ان میں سے 80 لاکھ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ انھیں اگلے وقت کا کھانا مل پائے گا بھی کہ نہیں۔

من میں حالات سن 2015 سے بدتر ہوتے گئے تھے جب حوثیوں نے یمن کے صدر عبد ربو منصور ہادی کی فوجوں کو شکست دے کر ملک کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا تھا۔ صدر منصور ہادی کو ملک سے فرار ہونا پڑا تھا۔

حوثیوں کے بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھتے ہوئے، جسے سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں نے ایران کا خطے میں نائب تصور کیا، فوری طور پر یمن میں فوجی مداخلت کرکے صدر منصور ہادی کی حکومت کو بحال کیا۔ لیکن ان کی عملداری ملک کے جنوبی حصے پر ہو سکی۔

اس کے بعد سے منصور ہادی اور حوثیوں کے درمیان ایک جنگ جاری ہے جس میں سعودی عرب یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر فوجی بمباری کرتا چلا آرہا ہے۔ اس بمباری سے بچوں سمیت ہزاروں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں ہیں۔



متعللقہ خبریں