ترکی کے اخبارات سے جھلکیاں
29.11.2016
روزنامہ حریت "قرتلمش: ترک لیرے کی جانب رحجان کے لیے ہمارے ٹھوس منصوبے پائے جاتے ہیں" کے زیر عنوان لکھتا ہے کہ نائب وزیر اعظم نعمان قرتلمش کاکہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اضافے کی وجہ امریکہ کے صدارتی انتخابات اور اس کے امریکی داخلی پالیسیوں پر محتمل اثرات سے پیدا ہونے والی غیر یقینی کی صورتحال پر مبنی ہے۔ انہوں نے ڈالر اور لیرے کے بھاؤ میں اُتار چڑھاؤ کے حوالے سے کہا کہ "ڈالر کی قدر میں بلندی ترک معیشت کے حالات سے مبرا ہے۔ ہم اس حوالے سے مثبت خیالات کے مالک ہیں کہ کچھ مدت کے بعد ڈالر کی آگ بجھ جائیگی۔ " نائب وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ترک لیرے کو مستحکم بنانے کے لیے ہم نے ٹھوس منصوبے تیار کیے ہیں، تجارت اور ادائیگیوں کو ترک لیرے کے ذریعے کو سر انجام دیے جانے کے حوالے سے اقدام اٹھائے جائینگے۔
روزنامہ ینی شفق " کاروباری شخصیات کی اپیل : ٹینڈرز ڈالر نہیں بلکہ ترک لیرے کی بنیاد پر جاری کیے جائیں" عنوان کے تحت لکھتا ہے کہ متحدہ امریکہ میں ریپبلیکننز کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابات میں میں فتح حاصل کرنے کے بعد امریکی ڈالر کی قدر میں سرعت سے اضافے کے رحجان کے بعد ترک لیرے کو کاروباری امور میں اولیت دینے کے زیر مقصد بعض اقدامات اٹھانے والی ترک حکومت سے کاروباری شخصیات نے بھی تعاون کا عندیہ دیا ہے۔ ترک لیرے کو اہمیت دینے کی ذمہ داری ہر کس پر عائد ہونے کی وضاحت کرنے والے تاجروں نے تمام تر سرکاری ٹینڈرز ، نج کاری اور دیگر معاہدوں میں غیر ملکی کرنسی کے بجائے ترک لیرے کو استعمال کیے جانے کی تحویز پیش کی ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں اپنی ہر ممکنہ خدمات و تعاون کا عندیہ بھی دیا ہے۔
روزنامہ سٹار "یورپی یونین میں مہاجرین کے حوالے سے افراتفری کا سماں پیدا " جلی سرخی لگاتے ہوئے لکھتا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے ترکی کے ساتھ رکنیت مذاکرات کو عارضی طور پر روکے جانے کے فیصلے پر صدر رجب طیب ایردوان نے سخت رد عمل کا مظاہرہ کیا۔ یورپی یونین کو متنبہ کرنے والے ایردوان کا کہنا ہے کہ 'اگر اس معاملے میں آپ مزید آگے گئے تو پھر ہم اپنی سرحدوں کو کھول دیں گے" ان الفاظ نے ترکی کے ساتھ واپسی قبول معاہدہ طے کرنے والے یورپ کو خدشہ دلایا ہے۔ ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ ترکی نے انہیں ہر طرح کی سہولیات فراہم کی ہیں۔ تاہم انسانی المیہ کی بنا پر ہم یورپی مملکتوں سے بھی اس ضمن میں بعض اقدامات اٹھانے کی توقع رکھتے ہیں۔ انہوں نے صدر ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ ہمارے لیے سرحدی دورازے کھول دیے جائیں ، ایسا کیے جانے کی صورت میں ہمارے تخمینے کے مطابق ابتدائی مرحلے میں پانچ لاکھ مہاجرین یورپ کا رخ کریں گے۔
روزنامہ صباح نے "یورپی یونین کی گھڑی ہوئی کہانیاں" عنوان کے تحت اپنی خبر میں لکھا ہے کہ یورپی یونین سالہا سال سے ترکی کو رکنیت کے معاملے میں مختلف وعدے کرتی چلی آرہی ہے۔ 12 ستمبر سن 1963 میں ترکی اور یورپ کے مابین ایک اہم معاہدہ طے پایا تھا۔ مشترکہ منڈی، یعنی یورپی اقتصادی سوسائٹی کہ جسے اب یورپی یونین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے تخیل کے موجد جرمن ماہر اقتصادیات والٹر ہالسٹین نے کہا تھا کہ 'ترکی ، یورپی یونین کے رکن دو ملکوں میں سے ایک ہے'۔ اس عمل کے بعد نصف صدی سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے ۔ کیا ہم اس سے کوئی نتیجہ اخذ کیا ہے؟ نہیں! یکسانیت قائم کرنے کی دیرینہ خواہش و عوامل کے باوجود یورپ نے ہم پر دروازے بند رکھے لیکن دہشت گردوں کے لیے مکمل طور پر کھول دیے۔
یورپ میں PKK دہشت گرد تنظیم سے منسلک انجمنوں کی تعداد 200 کے لگ بھگ ہے۔ ترکی اور یورپ کے درمیان سن 1970 میں "ویلیو پروٹوکول" طے پایا تھا جس کے مطابق ترک شہریوں کو سن 1976 سے یورپ میں آزادانہ سفر کرنے کے عمل کاآغاز ہوتے ہوئے اس نے سن 1986 میں کسی نتیجے تک پہنچنا تھا۔ چھوڑیں کسی نتیجے کو آزادانہ سفر کرنے کے حقوق میں سے بعض کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
روزنامہ خبر ترک " ٹرکش اسڑیم سن 2016 سے شروع ہو گی" کے زیر عنوان لکھتا ہے کہ ترکی اور روس کے مابین بحیرہ اسود کی تہوں میں بچھائے جانے والی ایک نئی پائپ لائن کے ذریعے ایک دوسرے سے ملانے والے "ٹرکش اسٹریم قدرتی گیس منصوبے " کے حوالے سے طے پانے والے بین الاقوامی معاہدے کو قومی اسمبلی کی منظوری کے لیے پیش کر دیا گیا ہے۔ اس منصوبے پر 30 دسمبر سن 2019 سے عمل درآمد شروع ہو گا، جسے ترک۔ روس شراکت داری سے سر انجام دیا جائیگا۔ اس منصوبے کے دائرہ کار میں 15 ارب 750 مکعب میٹر گنجائش کی حامل دو پائپ لائنیں زیر سمندر بچھائی جائینگی ، جن میں سے ایک کے ذریعے خطہ یورپ کو قدرتی گیس کی ترسیل کو ممکن بنایا جائیگا۔