مٹتی ہوئی شان و شوکت: قلعہ شیخوپورہ

تُزک جہانگیری کے مطابق شہنشاہ جہانگیر نے 1607 میں شکار کے لئے ہرن مینار پر قیام کے دوران سکندر معین کو ایک قلعہ تعمیر کرنے پر معمور کیا

113988
مٹتی ہوئی شان و شوکت: قلعہ شیخوپورہ

شیخوپورہ کا قلعہ مغل شہنشاہ جہانگیر کے دور میں تعمیر ہوا۔ اگرچہ اس دعوے کو تقویت دینے والے کوئی حتمی شواہد موجود نہیں ہیں تاہم صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ تُزک جہانگیری کے مطابق شہنشاہ جہانگیر نے 1607 میں شکار کے لئے ہرن مینار پر قیام کے دوران سکندر معین کو ایک قلعہ تعمیر کرنے پر معمور کیا ۔
لیکن اس قلعے کی سیاسی اہمیت پنجاب پر سکھ راج کے دوران ظاہر ہوئی۔ ایک ماہر آرکیالوجسٹ اور تاریخ دان احسان ایچ ندیم کے مطابق سکھوں کے طاقت پکڑنے سے پہلے یہ قلعہ دیہاتوں کو لوٹنے والے ڈاکو گروہوں کے چھپنے کی جگہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔
1797 میں لاہور پر دُرّانی بادشاہ شاہ زمان کے قبضے کے دوران صرف اس قلعے کو ڈاکووں سے صاف کرنے کے لئے اس کا محاصرہ کیا گیا لیکن شاہ زمان کے قلعے سے واپس لوٹنے کے بعد جلد ہی قلعے پر اندر سنگھ نامی ایک ڈاکو نے قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں رنجیت سنگھ کے ایک اتحادی لہنا سنگھان نے قلعے پر حملہ کیا اور اندر سنگھ کو گرفتار کر کے سزائے موت دے دی۔اس کے بعد قلعہ بھائی سنگھ کی ملکیت میں چلا گیا۔
تاہم چند ہاتھ تبدیل کرنے کے بعد 1808 میں جب رنجیت سنگھ کی فوجوں نے قلعے پر حملہ کیا اور قلعے کو ہتھیار پھینکنے پر مجبور کر دیا تو اس وقت قلعہ صاحب سنگھ اور ساہائی سنگھ کی ملکیت میں تھا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے قلعہ فتح کرنے کے بعد اسے ایک جاگیر کی شکل میں اپنی بیوی دتر کنور کے نام کر دیا ۔ دتر کنور کو راج کنور یا مائی نکائیں کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے جو رنجیت سنگھ کے ولی عہد کھڑک سنگھ کی ماں تھی۔ راج کنور نے اپنی زندگی کے آخری دن تک اسی قلعے میں قیام کیا۔

راج کنور نے یقیناً اس چھوٹے، اسٹریٹجک لحاظ سے کم اہم اور تقریباً ترک شدہ قلعے کو آباد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے اس قلعے میں کلاسیکی ڈیزائنوں سے مزّین ایک شاندار حویلی تعمیر کروائی۔ اس حویلی کی پہلی منزل کے ہال کمرے اور پہلی منزل کا اپنے سے مخصوص کانگرہ اسٹائل کنور کے بہترین ذوق کا آئینہ دار ہے۔
انیسویں صدی کے وسط میں جب طاقت برطانیہ کی ہاتھ میں آئی تو شیخوپورہ کے قلعے کو مہاراجہ کی آخری ملکہ اور مہاراجہ دلیپ سنگھ کی ماں رانی جنداں کی نظر بندی کے لئے استعمال کیا گیا۔
سر ہنری منٹگمری لارنس، پنجاب میں برٹش گورنمنٹ کے ریذیڈنٹ، نے گورنر جنرل کو اپنے 9 اگست 1847 میں تحریر کردہ مکتوب میں رانی جنداں کو جلاوطن کرنے کا مشورہ دیا۔
ہنری منٹگمری کی ہدایت پر نوجوان مہاراجہ دلیپ سنگھ کو لاہور قلعے کے محل سے نکال کر شالیمار باغ بھیج دیا گیا اور مہارانی کو شیخوپورہ قلعے میں قید کر دیا گیا۔
قلعہ پہنچنے کے فوراً بعد مہارانی نے اسے اس کے محض نو سالہ بیٹے مہاراجہ دلیپ سنگھ سے جدا کرنے جیسی نا انصافی کے خلاف لاہور کے ریذیڈنٹ کو مراسلہ تحریر کیا۔ مراسلے کی تحریر کچھ اس طرح ہے۔
عظیم گُرو کی مہربانی سے
بی بی صاحب کی طرف سے لارنس صاحب کے نام،
ہم خیریت سے یہاں پہنچ گئے ہیں، آپ کو ہمارا سامان احتیاط سے پہنچانا چاہیے کیوں کہ ہم جیسے لاہور قلعے کے برج محل میں رہ رہے تھے اسی طرح شیخوپورہ میں ہیں۔ ہمارے لئے دونوں جگہیں ایک جیسی ہیں آپ نے ہمارے ساتھ بہت ظالمانہ سلوک کیا ہے۔
آپ نے ہم سے ہمارے بیٹے کو چھین لیا ہے۔ اس خدا کے نام پر کہ جس کی آپ عبادت کرتے ہیں اور اس بادشاہ کے نام پر کہ جس کا آپ نمک کھا رہے ہیں ہمیں ہمارا بیٹا واپس کر دیں۔ ہم سے اس کی جدائی برداشت نہیں ہوتی۔ ہم شیخوپورہ میں رہیں گے لاہور نہیں جائیں گے۔ ہمارے بیٹے کو ہمارے پاس بھیج دیں۔ ہم آپ کے پاس لاہور صرف ان دنوں میں آئیں گے جب آپ دربار لگائیں گے۔
اس دن ہم اسے بھیج دیں گے۔ ہمارے ساتھ سخت ناانصافی کی گئی ہے ہمارے بیٹے کے ساتھ سخت نا انصافی کی گئی ہے۔ آپ نے وہ سب مان لیا جو دوسرے لوگوں نے کہا لیکن اب اس ظلم کو بند کریں کیوں کہ پہلے ہی بہت ہو چکا ہے۔
مہارانی کو 15مئی 1848 کی سہ پہر کو قلعے سے نکال کر باقی ماندہ زندگی بسر کرنے کے لئے پہلے نیپال اور اس کے بعد لندن جلا وطن کر دیا گیا۔ مہارانی کی شیخوپورہ کے قلعے میں دس ماہ کی نظر بندی کے دوران برطانوی راج نے اس کے ہاتھ سے اس کے شوہر کی شاہی اور اس کے بیٹے کو چھین لیا۔
پنجاب کے ساتھ ساتھ پورے انڈیا اور یہاں تک کہ ہمسایہ ملک افغانستان پر قلعے کے طاقتور اثر کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے سکھ شاہ نے بھارت کے مغربی بارڈر کے اداراتی شکل اختیار کرنے میں اور دفاع میں قابل ذکر کردار ادا کیا اور اس پہلو سے دہلی تک تعلقات معمول پر آئے۔
اپنے عروج کے دور میں مشرق میں تبت سے لے کر مغرب میں درہّ خیبر تک ، شمال میں کشمیر تک اور جنوب میں سندھ تک پھیلی ہوئی سکھ حکومت انیسویں صدی کے آخری چالیس سالوں میں اپنے داخلی اداروں کی ناکامی اور بد نظمی کی وجہ سے برطانوی قبضے میں چلی گئی۔
برطانوی راج کے دوران اس قلعے کو 1849 سے لے کر 1851 تک ضلع گوجرانوالہ کے اداراتی ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ تاہم ضلعی ہیڈ کوارٹر کے ضلع گوجرانوالہ میں منتقل ہونے پر اس قلعے کو بعض اوقات فوجی پوسٹ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ 1918 میں اداراتی نطام میں خامیاں آنے پر شیخوپورہ میں ایک اور ضلع بنایا گیا۔ ان دنوں میں قلعے نے نئے بننے والے ضلعے کے پولیس ہیڈ کوارٹر کی خدمات سرانجام دیں۔
1947 میں تقسیم کے بعد اسے بھارتی پنجاب سے آنے والے مہاجرین کی پناہ کے لئے استعمال کیا گیا اور اس کے بعد 1967 میں یہ پاکستان آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کی تحویل میں چلا گیا۔
اب اس قلعے میں داخلی دروازے کی بالائی آرائش کے علاوہ مغل دور کے طرز تعمیر کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اگرچہ لاپرواہی کا شکار ہے لیکن اس احاطے میں موجودہ دور تک پہنچنے والی واحد عمارت نونہال سنگھ کی حویلی سے مشابہہ راج کنور کی حویلی ہے ۔
اس حویلی کا سب سے نمایاں پہلو اس کی آرائش ہے ۔ اس وقت اس حویلی کے لکڑی کے قیمتی دروازوں ، کھڑکیوں اور چھت کے کچھ حصے غائب ہو چکے ہیں اور حویلی ایک بھوت گھر کا منظر پیش کرتی ہے۔
کھنڈرات کے کمروں کے داخلی حصے اگرچہ چمگادڑوں کا نشیمن بن چکے ہیں لیکن ابھی بھی داخلی دیواروں پر کانگرہ اسٹائل میں رنگین تصاویر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ راج کنور کی حویلی کا یہ آرائشی آرٹ ورک عبادت سے لے کر جذبات تک انسانی زندگی کے تمام پہلووں کی تصویر کشی کرتا ہے۔
تصاویر کے رنگوں میں ابھی بھی جان ہے لیکن حویلی اپنے وجود کے آخری کنارے تک پہنچ گئی ہے اور اسے گرنے کے خطرے کی وجہ سے عوام کے لئے بند کر دیا گیاہے۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں