گولان پہاڑیوں کے حوالے سے امریکی پالیسیاں امریکی ڈپلومیسی کو نقصان پہنچائیں گی
"ٹرمپ کا اپنی مرضی کے مطابق گولان کے بارے میں واشنگٹن کے موقف کو تبدیل کرنا مستقبل میں شام اور اسرائیل کے درمیان ہو سکنے والے مذاکرات کے امکان کو نا ممکن بنا دے گا
امریکی واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گولان پہاڑیوں کو"اسرائیلی سرزمین" کے طور پر تسلیم کرنا امریکی ڈپلومیسی کو نقصان پہنچائے گا۔
اخبار لکھتا ہے کہ " بروز جمعرات ٹرمپ کے اسرائیل کے گولان پہاڑیوں سے الحاق کو تسلیم کرنے کے اعلان کو مشرقِ وسطی و دیگر علاقوں میں امریکی ڈپلومیسی کو نقصان پہنچانے سمیت اسرائیل کے ساتھ بلا کسی مفاد کے اچھائی کرنے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ "
امریکہ کی علاقے میں پالیسیاں نصف صدی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 242 نمبر کی قرار داد کا حوالہ دینے والی تحریر میں دعوی کیا گیا ہے کہ "ٹرمپ کا اپنی مرضی کے مطابق گولان کے بارے میں واشنگٹن کے موقف کو تبدیل کرنا مستقبل میں شام اور اسرائیل کے درمیان ہو سکنے والے مذاکرات کے امکان کو نا ممکن بنا دے گا۔"
اخبار مزید لکھتا ہے کہ نتن یاہو کی حکومت سمیت اسرائیلی حکومتیں 'گولان پہاڑیوں کے معاملے میں دو طرفہ امن معاہدے" کی مفاہمت پر کار بند رہتی تھیں۔ اب مستقبل میں ہونے والا کوئی امن معاہدہ کس بنیاد پر طے پائے گا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ اس سوال پر غور نہیں کرسکے ہیں۔ اور نہ ہی انہوں نے روس کے کریمیا کو اپنی سر زمین میں شامل کرنے کی طرح کی کوششوں کے امریکی پالیسیوں کو بھی مد نظر رکھا ہے۔