ٹرمپ کے صدارتی حکم کیخلاف نیویارک، واشنگٹن، بوسٹن اور لندن  میں مظاہرے

ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سےشام ،عراق،یمن،ایران ،سوڈان،صومالیہ  اور لیبیا سے آنے والے تارکین وطن کیخلاف اقدامات پر دنیا بھر میں شدید رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے ۔

662565
ٹرمپ کے صدارتی حکم کیخلاف نیویارک، واشنگٹن، بوسٹن اور لندن  میں مظاہرے

ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سےشام ،عراق،یمن،ایران ،سوڈان،صومالیہ  اور لیبیاسے آنے والے تارکین وطن کیخلاف اقدامات پر دنیا بھر میں ہونے والے ردعمل کے بعد امریکی حکومت نے گرین کارڈ ہولڈرافراد کے ملک میں دوبارہ داخلے پر لگائی گئی پابندیوں کو نرم کردیا ہے۔

جمعے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت سات مسلم اکثریتی ممالک سے آنے والے افراد کے ساتھ ایئر پورٹس پر کسٹم اور امیگریشن کے نئے قوانین لاگو ہونا تھے لیکن حکام قوانین کے حوالے سے موجود کنفیوژن سے نمٹنے کی کوششیں کرتے رہے۔ملک بھر میں ہوائی اڈوں پر احتجاج اس کے علاوہ تھا۔ ایک وفاقی جج نے انتظامی حکمنامے کے خلاف حکم امتناع جاری کر دیا جس کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں کے علاوہ سرکردہ ڈیموکریٹ اور ریبپلکن ارکان کانگریس نے بھی اس فیصلے پر تنقید کی۔

ادھر امریکی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئر مین سینیٹر باب کروکرجو ٹرمپ کے حامی رہے ہیں انھوں نے بھی ٹرمپ کے حکمنامے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’صدارتی حکم بڑے خراب طریقے سے نافذکیا گیا بالخصوص گرین کارڈ رکھنے والوں کے حوالے سے!‘۔ ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی جو کسٹم کے معاملات، سرحدی اور امیگریشن ایجنسیوں کی نگرانی کرتا ہے اس سارے عرصے میں نئے قوانین کی تشریح اور ان کا نفاذ کرنے کی کشش کرتا رہا۔ گرین کارڈ رکھنے والوں کا معاملہ خصوصی طور پر کنفیوژن کا موضوع تھا کیونکہ انتظامی حکام ہفتے کو  کہہ چکے تھے کہ جن سات مسلم ممالک کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان کے وہ افراد جو گرین کارڈ رکھتے ہیں اور اپنے آبائی ملکوں کو گئے ہوئے ہیں انھیں بھی دوبارہ سے جائزے کے عمل سے گزارے بغیر واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔

دوسری جانب اتوار کے روز ہوم لینڈ سیکیورٹی نے کہا کہ قانونی طور پر مستقل رہائش رکھنے والے کو سیکیورٹی چیکنگ کے بعد داخلے کی اجازت دے دی جائے گی۔ہوم لینڈ سیکیورٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ اہم چیز یہ ہے کہ قانونی طور پر امریکا میں مستقل رہائش رکھنے والے وہ افراد جن کے پاس کارآمد ون فائیو فائیوون (گرین کارڈ) ہے انھیں امریکا آنے والی پروازوں میں بیٹھنے کی اجازت ہوگی لیکن امریکا میں داخلے کے مقام پر حسب ضرورت ان کی جانچ کی جاسکتی ہے۔

کیلیفورنیا، پنسلوانیا، ای نوائے، نیو میکسکیو، میساچیوسٹس سے اور ہوائی سمیت16 امریکی ریاستوں کے اٹارنی جنرلز نے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرکیخلاف دائرمقدمہ لڑنے کا اعلان کردیا،  مشترکہ بیان میں صدارتی حکمنامہ کوغیرآئینی، غیرقانونی اورامریکی اقدار کے منافی قراردیتے ہوئے کہاگیا کہ مذہبی آزادی بنیادی امریکی اقدار میں سے ایک ہے جسے کوئی صدر تبدیل نہیں کر سکتا۔

ادھر،سخت تنقید کے باوجودٹرمپ اپنے موقف پرڈٹے نظر آتے ہیں، امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ صدارتی حکم نامے کے خلاف مختلف امریکی شہروں اورایئرپورٹس پر احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، صدارتی حکم نامے کے مطابق مسلم اکثریت کے حامل شام، عراق، ایران سمیت 7ممالک کے شہریوں کے امریکامیں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس کے بعد ان ممالک سے آنے والے کوبے دخل یاحراستی مراکز میں محبوس کردیا گیا ہے۔

نیویارک، واشنگٹن اوربوسٹن میں دوسرے  ہفتے کو بھی جاری مظاہرے دیگر شہروں تک پھیل گئے۔ نیویارک میں کسٹمز اوربارڈرپروٹیکشن ایجنسی  کے دفترکی جانب 10ہزارسے زائد افرادنے مارچ کیا، نیویارک سے منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک سینیٹر چارلس شومرنے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ٹرمپ کے احکام امریکی اقدارکے خلاف ہیں، یہ بہت سارے لوگوں کی زندگی اورموت کا مسئلہ ہے، ہم صدارتی حکم کی منسوخی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے قریب ہزاروں افراد نے مارچ کیا وہ ’نفرت نہیں، پناہ گزینوں کو خوش آمدید‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ مظاہرین جب ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل کے قریب پہنچے تو انھوں نے شیم شیم کے آوازے لگائے، مظاہرین جب کینیڈین سفارت خانے کے قریب پہنچے تو انھوں نے کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے اقدامات پرخیرمقدمی نعرے لگائے اور کہا کہ لیڈر ایسا ہونا چاہیے۔

یاد رہے کہ جسٹن ٹروڈونے اپنے ٹویٹرپیغام میں پناہ  گزینوں کے خیرمقدم کی پالیسی جاری رکھنے کا اعلان کیاتھا۔ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر بھی ہزاروں افراد جمع ہوگئے جہاں  بیرون ملک سے آمد پرحراست میں لیے گئے افرادکے اہل خانہ بھی موجود تھے۔ لاس اینجلس ایئرپورٹ پربھی  ہزاروں مظاہرین پہنچ گئے اور ’پناہ گزینوں کوخوش آمدید‘کے نعرے لگاتے رہے۔

 



متعللقہ خبریں