رپرٹ مرڈخ کی اسکینڈل ٹویٹ پر دنیا بھر سے شدید ردِ عمل

عالمی شہرت یافتہ میڈیا کے منتظمین میں سے رپرٹ مرڈخ نے پیرس سے شائع ہونے والے مزاحیہ جریدے شارلی ایبڈو پر کیے جانے والے حملے میں دو پولیس اہلکاروں، چار کارٹونسٹوں کل بارہ افراد کی ہلاکت کی وجہ بننے والے دہشت گردی کے حملے سے متعلق دی جانے والی ٹویٹ کے ایک گھنٹے بعد ہی ہزار ہا افراد نے اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے

181236
رپرٹ مرڈخ کی اسکینڈل ٹویٹ پر دنیا بھر سے شدید ردِ عمل

رپرٹ مرڈخ کی اسکینڈلٹویٹ۔
مرڈخ کی اسکینڈل ٹویٹ پر ہزار افراد نے اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔
عالمی شہرت یافتہ میڈیا کے منتظمین میں سے رپرٹ مرڈخ نے پیرس سے شائع ہونے والے مزاحیہ جریدے شارلی ایبڈو پر کیے جانے والے حملے میں دو پولیس اہلکاروں، چار کارٹونسٹوں کل بارہ افراد کی ہلاکت کی وجہ بننے والے دہشت گردی کے حملے سے متعلق دی جانے والی ٹویٹ کے ایک گھنٹے بعد ہی ہزار ہا افراد نے اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔
اس بارے میں ترکی کے صدر کے ترجمان ابراہیم قالن نے اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔
قالن نے اپنی ٹویٹ میں مرڈخ کے تجزیے کا احمقانہ قرار دیا ہے۔
قالن نے کہا ہے کہ "ایک بلین 600 ملین مسلمانوں کو فرانس کے حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا بالکل ایسا ہی احمقانہ اور نسلیت پرست منطق کا حامل ہے جیسا کہ پورے مغرب کو دوسری جنگ عظیم ہولوکاسٹ اور ہیروشیما کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا ہے ۔"
مرڈخ کے بیان پر پوری دنیا میں ردِ عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
مرڈخ جس کے فالورز کی تعداد نصف ملین سے زائد ہے کی اس ٹویٹ کا صرف چند ایک ہزار افراد کی طرف سے پسند کیاجانا سب کے لیے باعث حیرت ہے۔
ایک فالور نے " صرف مٹھی بھر انسانوں کی جانب سے کی جانے والی اس کاروائی کی ذمہ داری بلین کے قریب انسانوں پر عائد نہیں کی جاسکتی ہے" لکھتے ہوئے اپنے شدید ردِ عمل کا ظہار کیا ہے۔
رپرٹ مرڈخ جو کہ برطانیہ اور متحدہ امریکہ سمیت کئی ایک ممالک میں میڈیا کی بہت بڑی قوت کو اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں اس سے قبل بھی عراق کی جنگ کو ہوا دینے کے مقصد کے تحت شائع اور نشر کردہ خبروں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بن چکے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست کی چوٹی پر جگہ پانے والے مرڈخ کے اس بیان کو ایک ایسے موقع پر جب کی فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اتوار کے روز یک جہتی اور اتحاد کے مظاہرے سے صرف چند گھنٹے باقی ہیں دیا جانا بدقسمتی قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم احمد داؤد اولو کے علاوہ دو ممالک سے مملکتی سربراہان اور آٹھ ممالک سے وزرائے اعظم کے علاوہ کئی ایک ممالک سے وزراء کی سطح پر یکجا ہونے والے اس مظاہرے کے موقع پر اس مظاہرے کی روح کے منافی الفاظ استعمال کرنے والے مرڈخ کا یہ بیان فرانس کے صدر فرانسواں اولینڈ کی جانب سے اس حملے کے بارے میں استعمال کیے جانے والے الفاظ" اس حملے کا اسلام سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے" سے بالکل متضاد ہے۔ مرڈخ اس حملے میں جان بحق ہونے والے پولیس اہلکار و ں میں سے ایک اور مسلمان ہونے کی وجہ سے اس واقعے کی علامت کی حیثیت اختیار کر جانے والے احمد مرابت کو بالکل نظر انداز کرگئے ہیں۔
اس حملے پر اسلامی ممالک کے رہنماؤں سمیت پوری دنیا نے اپنے شدید ردِ عمل کا ظہار کیا تھا اور دہشت گردی پر پوری دنیا کی جانب سے لعنت ملامت کی گئی تھی۔



ٹیگز:

متعللقہ خبریں