کیوبا اور متحدہ امریکہ ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں

کیوبا کے لیڈر نے ہفتے کے روز امریکی صدر براک اوباما کی تعریف کی، جنھوں نے امریکہ اور کیوبا کے مابین سفارتی تعلقات کو بحال کرنے کے سلسلے میں قدم آگے بڑھایا۔ تاہم، راول کاسترو نے اپنے عوام کو بتایا کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کیوبا میں کمیونسٹ حکمرانی ختم ہوگی

154676
کیوبا اور متحدہ امریکہ ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں

کیوبا اور متحدہ امریکہ کے درمیان تعلقات کے نارمل سطح پر لانے سے متعلق بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری ہے۔
کیوبا کے لیڈر نے ہفتے کے روز امریکی صدر براک اوباما کی تعریف کی، جنھوں نے امریکہ اور کیوبا کے مابین سفارتی تعلقات کو بحال کرنے کے سلسلے میں قدم آگے بڑھایا۔ تاہم، راول کاسترو نے اپنے عوام کو بتایا کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کیوبا میں کمیونسٹ حکمرانی ختم ہوگی۔
کیوبا کی قومی اسمبلی سے خطاب میں، جسے ٹیلی ویژن کے ذریعے جزیرے بھر میں نشر کیا گیا، مسٹر کاسترو نے کہا ہے کہ امریکی عہدے داروں کے ساتھ وسیع تر امور پر گفتگو ہوسکتی ہے، جس وفد کا ہوانا کا دورہ اگلے ماہ متوقع ہے۔
اُنھوں نے اِس بات کی بھی تصدیق کی کہ وہ اپریل میں پاناما میں منعقد ہونے والے امریکی براعظموں کے ممالک کے سربراہان کے اجلاس میں شرکت کریں گے، جس دوران اُن کی مسٹر اوباما سے ملاقات متوقع ہے۔
ادھر واشنگٹن میں کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے بارے میں ایک سوال پر، جمعے کے روز صدر اوباما نے بتایا کہ اُنھیں یہ توقع نہیں ہے کہ کیوبا کے ساتھ تعلقات میں فوری طور پر کوئی ڈرامائی تبدیلی آئے گی۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ اب امریکہ کو کیوبا کی حکومت اور عوام کے ساتھ مکالمے کے کہیںٕ بہتر مواقع میسر آئیں گے۔
ہفتے کے روز صدر کاسترو کا یہ خطاب سفارتی پیش رفت کے بعد اُن کا پہلا عام بیان تھا۔ سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان دونوں ملکوں کے صدور نے ایک ہی وقت کیا۔
مسٹر کاسترو نے کہا کہ کیوبا معاشی اصلاحات کے پروگرام میں تیزی لائے گا، جس کا مقصد ایک ’خوش حال اور مستحکم کمیونزم‘ کی ایک قسم کی بنیاد ڈالنا ہے۔ تاہم، اُنھوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ یہ تبدیلیاں رفتہ رفتہ آئیں گی۔
صدر اوباما نے بتایا کہ امریکہ آنے والے مہینوں میں کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں سفارتخانہ کھولنے کا سوچ رہا ہے۔
رپبلکن سینیٹر مارکو روبیو نے امریکہ اس نئی امریکی پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ یہ کیوبا کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور سیاسی نظام کی تبدیلی کے حوالے سے کچھ نہیں کرے گی۔
یاد رہے کہ 2011 میں امریکی صدر براک اوباما نے امریکی شہریوں کے کیوبا جانے پر عائد پابندیوں میں نرمی کا اعلان کیا تھا۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں