غیر قانونی ہجرت، قوانین اور خوفناک جرائم

ترکی میں خاص طور پر استنبول شہر میں یہ غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ کیوں دیکھنے میں آیا ہے ۔  بہت ساری وجوہات ہیں جن سے اس  خوفناک صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ترتیب میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں

1887703
غیر قانونی ہجرت، قوانین اور خوفناک جرائم

(غیر قانونی مہاجرین) قوانیں اور خوفناک جرائم

تحریر  صغیر رامے 

(غیر قانونی مہاجرین) قوانیں اور خوفناک جرائم

 میں پچھلے دو سالوں سے غیر قانونی تارکین پر تحقیق کر رہا ہوں تاکہ وجوہات کی  چھان بین کر سکوں کہ ترکی میں خاص طور پر استنبول شہر میں یہ غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ کیوں دیکھنے میں آیا ہے ۔  بہت ساری وجوہات ہیں جن سے اس  خوفناک صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ترتیب میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

 1) غیر قانونی تارکین وطن زیادہ تر جنوبی ایشیائی ممالک جیسے پاکستان، افغانستان، ایران سے یورپ میں داخل ہونے کے خوابوں اور خواہشات کے ساتھ ترکی آتے ہیں اور وہ متعلقہ ممالک کے انسانی سمگلروں کی مدد سے سرحدیں عبور کرتے ہیں۔

 2) استنبول میں غیر قانونی تارکین وطن کی اسمگلنگ کے لیے مافیاز کے بڑے گروپ کام کر رہے ہیں اور وہ انھیں ترکی لانے اور سمندر کے راستے یونان بھیجنے کے لیے خدمات فراہم کرتے ہیں جن کے بارے میں تمام غیرقانونی تارکین وطن جانتے ہیں۔

 3) انسانی سمگلنگ کا یہ عمل بہت منافع بخش کام ہے جو کہ 2020 تک بہت پرامن طریقے سے جاری تھا یہاں تک کہ کوویڈ 19 نے دنیا کو چونکا دیا۔

 4) 2021 میں یونان کی سرحدی فورس نے یونان میں داخلہ نہایت مشکل کر دیا جس کی وجہ سے غیرقانونی تارکین وطن استنبول میں جمع ہونا شروع ہو گئے۔ یورپ جانے کے خواب چکنا چور ہونے پر واپسی بھیانک خواب ہوتا ہے لہذا اچھے وقت کے انتظار میں اب انہیں کسی بھی طریقے سے زندہ رہنا ہے لیکن ان کی قانونی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ چھپ چھپا کر کام کرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور یورپ جانے کے لئیے اچھے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ چونکہ غیر قانونی نقل مکانی خود ایک مجرمانہ فعل ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ غیر قانونی تارکین زیادہ تر مجرمانہ ذہنیت کے لوگ ہیں جو غیر قانونی طور پر بہت سی سرحدیں عبور کر رہے ہوتے ہیں۔اب چونکہ وہ غیر قانونی ہیں  اس لیے وہ اپنی بقا کے لیے غیر قانونی طریقے اپناتے ہیں، خاص طور پر جب انھوں نے یورپ پہنچنے کے لئیے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے انسانی سمگلروں کو بھاری رقم دی ہو اور ان کے والدین سمجھتے ہوں کہ وہ استنبول میں یعنی یورپ پہنچ چکے ہیں، تو بہت سی امیدیں لگائے شاہانہ زندگی کے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔

 5) زیادہ تر مجرمانہ ذہنیت کے حامل تارکین وطن جب غیر قانونی انسانی سمگلروں کا سامنا کرتے ہیں اور ان کے وعدے پورے نہیں ہوتے ہیں تو وہ مزید جارحانہ ہو جاتے ہیں اور اپنے خوابوں اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ان کے دماغ پر سخت دباؤ ہوتا ہے اس لیے یا تو وہ ان گینگز کا حصہ بن کر ،نئے شکار تلاش کر کے اپنی رقم ریکور کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر وہ خود لوگوں کو غیر قانونی بارڈر کراسنگ کی طرف راغب کرنے اور اس لین دین سے پیسہ کمانے کے لیے اپنا الگ سے نیٹ ورک  شروع کر دیتے ہیں جبکہ ان میں سے کچھ غیر قانونی تارکین کو اغوا کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان مغوی متاثرین کی کوئی قانونی حیثیت یا ریکارڈ نہیں ہے لہذا قانونی کارروائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ متاثرین ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کر سکتے اور نہ ہی ترکی میں کوئی شکایت درج کروا سکتے ہیں۔

 

 غیر قانونی تارکین کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ وہ کم و بیش مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ وہ پہلے ہی غیر قانونی طور پر مختلف سرحدیں عبور کرنے کا جرم کر چکے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ وہ اس معاشرے کا حصہ نہیں بن سکتے۔  میں اس موضوع میں شامی مہاجرین کو شامل نہیں کر رہا ہوں کیونکہ ان کا منظرنامہ مختلف ہے جس پر میں کسی دوسرے کالم میں بات کروں گا لیکن یہاں میں زیادہ تر افغانستان، بنگلہ دیش، ایران اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین پر توجہ مرکوز کروانا چاہتا ہوں۔

 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اس جرم  پر قابو پانا کیوں ناممکن نظر آتا ہے؟

 اس کا جواب نہایت آسان  ہے ۔ اگر ماضی میں جھانکا جائے تو افغانستان اور بنگلہ دیش کے سفارتخانے یا قونصلیٹ میں بیٹھے سفیر اس طرز عمل کو کنٹرول کرنا ضروری نہیں سمجھتے اور ترک حکومت متعلقہ حکام کے تعاون کے بغیر کسی بھی شخص کو بین الاقوامی قوانین کی وجہ سے ڈی پورٹ نہیں کر سکتی۔ یہ دیکھا گیا ہے جب بھی افغانستان اور بنگلہ دیش کے غیرقانونی تارکین وطن گرفتار ہوتے ہیں تو متعلقہ سفارت خانے ان تارکین وطن کو اپنے شہری کے طور پر تسلیم ہی نہیں کرتے کیونکہ غیرقانونی تارکین وطن کے پاس کسی قسم کے کوئی دستاویز نہیں ہوتے جس سے ثابت کیا جا سکے کہ وہ کس ملک کے شہری ہیں جس کی بنیاد پر کوئی بھی قانون کسی ملک کو کسی بھی شخص کو متعلقہ سفارتکاروں کی تصدیق کے بغیر کسی ملک میں ڈی پورٹ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔  جہاں تک پاکستانی غیر قانونی تارکین وطن کا معاملہ ہے، جو سرحد پار کر کے یورپ کے لئیے آتے ہیں اور اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو وہ یہاں چھپ جاتے ہیں اور کہیں ماہانہ اخراجات پورے کرنے کے لئیے کم تنخواہ پر چھپ چھپا کر نوکری کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے مالک کے لیے 24 گھنٹے دستیاب ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر، کچھ عرصے بعد مایوس ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے رہنے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے پیسے نہیں کما پاتے اور اپنے والدین کو واپس بھیجنے کے لیے کوئی بچت بھی نہیں کر پاتے، اس لیے وہ خود  پاکستان  کونسلیٹ میں جا کر واپس جانے کے لئیے آؤٹ پاس کی درخواست کرتے ہیں ہیں تاکہ انہیں پاکستان واپس بھیجا جا سکے۔ اگر ہم پچھلے دو سالوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو ماہانہ اوسطاً ایک ہزار تارکین وطن واپس پاکستان بھیجے گئے جن میں سے تقریباً نصف ایسے ہیں جنہوں نے پاکستان واپس جانے کے لیے آؤٹ پاسز کے لیے قونصل خانے میں خود درخواست دی۔ اس کے باوجود پاکستانی تارکین وطن کی تعداد میں کمی نہیں ہو پائی کیونکہ انسانی سمگلر اتنی ہی تعداد میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کو ماہانہ کی بنیاد پر بلوا رہے ہیں۔  جن تارکین وطن کو گرفتار کیا گیا ہے یا جنہوں نے خود واپس جانے کے لیے ہتھیار ڈال دیے، ان سے مفصل تفتیش کی جانی چاہیے تاکہ ایران اور یہاں تک کہ استنبول میں انسانی اسمگلروں اور ان کے سہولت کاروں کے بارے میں معلومات دستیاب ہو سکیں جس سے  اس نیٹ ورک کو توڑا جا سکے۔  جب تک انسانی سمگلروں کا قلع قمع نہیں کیا جاتا، غیر قانونی مہاجر کی آمدورفت کو روکا نہیں جا سکتا۔

اب اس معاملے کے حوالے سے خوفناک صورتحال افغان غیر قانونی تارکین کی ہے کیونکہ اول تو یہ جانتے ہیں کہ انہیں ملک بدر نہیں کیا جا سکتا اور دوسرا وہ افغانستان میں منشیات اور بندوق کے کلچر کے عادی ہیں، چنانچہ یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے کہ استنبول میں ان کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اغوا برائے تاوان کے گھناؤنے جرم میں ملوث ہیں اور اس سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ متاثرین کی طرف سے ان جرائم کا اندراج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ متاثرین بھی زیادہ تر غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔  میں اغوا کے بہت سے واقعات کو جانتا ہوں جن میں یرغمالیوں کی حراست کے دوران متاثرین کے والدین کو خوفناک تشدد کی ویڈیوز بھیجی جاتی ہیں اور بھاری رقم تاوان کے طور پر مانگی جاتی ہے۔ اغوا کار یہ رقم یونان یا اٹلی میں حاصل کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا نیٹ ورک  مختلف ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔  اب یہ بے رحم چیزیں اس معاشرے کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں کیونکہ وہ بے خوف ہیں اس لئیے کہ اگر انہیں گرفتار کر بھی لیا جائے تو انہیں ملک بدر نہیں کیا جا سکتا اور وہ گھناؤنے جرم کا ارتکاب کر سکتے ہیں دوسرا  وہ جانتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی پولیس شکایت درج نہیں ہو سکتی اور اگر رجسٹر ہو بھی جائے تو حکومت کے پاس ان لوگوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اس لیے  تاوان کی رقم وصول کر کے یہ بڑے مافیا بن گئے ہیں اور مختلف ممالک سے یہ جرائم نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔  ذرا سوچئے، چار لاکھ مجرمانہ ذہنیت کے حامل، منشیات کے تاجر اور اسلحہ کے حامل  استنبول کی سڑکوں پر بے خوف پھر رہے ہیں جن کے پاس بے خوف جرائم اور اغوا کی کارروائیاں کرنے کے وسیع وسائل ہیں اور دنیا بھر میں بہت بڑا نیٹ ورک اس معاشرے کے لیے کتنا خوفناک ہے اور یہ مجموعی اعداد و شمار نہیں ہیں۔  اس میں ہر ماہ مزید ہزاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ غیر قانونی تارکین وطن کی آمدورفت جاری ہے۔

 ترک حکومت کو تمام سفارت خانوں کے ساتھ بیٹھ کر اس خوفناک صورتحال پر قابو پانے کے لیے ایک فریم ورک بنانے کی ضرورت ہے ورنہ یہ بدستور موجود ہیں اور ترکی میں امن و امان کی صورتحال کے لیے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔  یہ  بہت مضحکہ خیز بات ہے کہ سفارت خانے اپنے شہریوں کو قبول کرنے اور انہیں واپس ڈی پورٹ کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ترک معاشرے کے لیے جرائم کا ایک بڑا خطرہ استنبول میں ہر آئے روز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔



متعللقہ خبریں