کیونکہ۔20

آج ہم آپ کے ساتھ اجتماعی انسانی ذہن کی پیداوار اور دورِ حاضر میں عالمی سطح پر مستعمل ایک علامت کے بارے میں بات کریں گے

2141616
کیونکہ۔20

آج ہم آپ کے ساتھ اجتماعی انسانی ذہن کی پیداوار اور دورِ حاضر میں عالمی سطح پر مستعمل ایک علامت کے بارے میں بات کریں گے۔ جی تو ہمارا آج کا سوال یہ ہے کہ سانپ جو زیادہ تر انسانوں میں خوف اور کراہت کی حِس بیدار کرتا ہے  آخر کیسے طِب کی علامت بن گیا؟

 

انسانیت کے بارے میں دریافت ہونے والے آثارِ قدیمہ   سے ثابت ہوتا ہے کہ  اس وقت تک معلوم پہلے انسانی معاشرے   سے ہی انسان حیوانات کی شبیہوں کو استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ45 ہزار سالہ قدیم ابتدائی تصاویر  سے لے کر اب تک حیوانات انسانی ثقافت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں تو کچھ مبالغہ نہ ہو گا۔ ترکیہ میں دریافت کی گئی اور "گیوبک لی تیپے آثارِ قدیمہ " کے نام سے معروف انسانی تہذیب آج سے کوئی 12 ہزار سال پہلے کی تہذیب ہے۔  اس تہذیب کے کھنڈرات سے وابستہ تمام اساطیر میں حیوانات کو قدرتی حیات میں انسان کے ایک ساتھی کے طور پر دِکھایا گیا ہے۔

 

اگر ہم کہیں کہ قدیم اساطیر کی تشکیل، قدرتی واقعات، خونخوار اور زہریلے جانوروں   کے خوف کے انسانی ذہن کی لامحدود قوّتِ تخیل کے ساتھ امتزاج سے ہوئی تو غلط نہ ہو گا۔ دیکھا جائے تو آج بھی انسان پُراسرار واقعات کے بیان کے لئے  غیر معمولی قوّتوں کا سہارا لیتا ہے۔ ان قوّتوں  کی شکل و شباہت کو بیان کرنے کے لئے انسان قبل از تاریخ کے ادوار سے ہی حیوانات کی شبیہوں کو استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ اگرچہ اساطیری کردار موجودہ دور میں واضح ترین شکل میں سیّاروں کے ناموں کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں لیکن اصل میں ہماری زندگیوں میں ایک ایسی شبیہ موجود ہے جس سے ہمارا سامنا سیّاروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ یہ شبیہ علمِ طب کی علامت یعنی سانپ کی شبیہ ہے۔

 

حالِ حاضر میں لوورے عجائب گھر میں نمائش کے لئے رکھے گئے ، سومیر بادشاہ  'گوئیڈا' کے سنگی نقوش میں ایک شراب کا پیالہ دِکھائی دے رہا ہے جس پر ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے دو سانپوں کی شبیہیں تراشی گئی ہیں۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ دو سانپ صحت کی دیوی 'ننگزیدا' کی علامت ہیں۔ قدیم یونانی اور رومی اساطیر میں بھی سانپ کو طب کی دیوی 'آسکلیپیوس' کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ آسکلیپیوس مریضوں کو شفا دیتی ہے اور اس کی تصویر  سانپوں والے عصا کے ساتھ کھینچی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قدیم  میزوپوٹیما اور مصری تہذیب میں بھی سانپ کو  شفا بانٹنے والی دیوی اور دیوتاوں کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ قدیم تحریروں میں سانپ کے پرانی کھال  اتارنے کو بھی  صحت یابی اور ایک نئے آغاز کا استعارہ  بنایا گیا ہے ۔

 

یہ کہا جائے کہ سانپ کی طاقت اور اس کے مہلک زہر  کے پیدا کردہ خوف نے اسے ایک ایسی مخلوق کی شکل دے دی جو قابل احترام ہے اور جس سے شفاء کی امید باندھی جاتی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ قدیم انسانوں کا سانپ سے متعلق  طرز فکر آج ایک مختلف روپ میں ہمارے سامنے ہے۔ موجودہ دور میں  سانپ کا زہر  ایک کیمیائی مادہ ہے جو طب کی صنعت میں ادویات سازی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آخر میں یہ بھی بتاتے چلیں کہ لفظ  'فارماکولوجی'  اصل میں 'فارماکون' سے وجود میں آیا ہے اور فارماکون قدیم یونان میں زہر کا مفہوم بھی رکھتا تھا اور دوا کا بھی۔  اور اب ہم اپنی بات کو ان الفاظ پر ختم کرنا چاہتے ہیں کہ 1959 میں عالمی طب سوسائٹی نے ایک عصا کے گرد لپٹے دو سانپوں کی شبیہ کو طب اور طبیب کی علامت قبول کیا اور یہ علامت آج پوری دنیا میں مستعمل ہے۔


ٹیگز: #کیونکہ

متعللقہ خبریں