تجزیہ 19

اسرائیل کی رفح میں قتلِ عام کی تیاریاں اور خطے کی تازہ صورتحال کا جائزہ

2138153
تجزیہ 19

مصر اور قطر کی ثالثی میں طویل عرصے سے جاری جنگ بندی کے مذاکرات کے بعد حماس نے جنگ بندی معاہدے کو قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اس بیان کے بعد عالمی برادری جنگ بندی کی منتظر تھی تو  نیتن یاہو نے ایک بار پھر چاہے کچھ بھی ہو ہم رفح کو نشانہ بنائیں گےکہہ کر اسرائیل کے ارادے کو  واضح کر دیا ہے۔اسرائیل نے رفح کو خشکی اور فضا سے  ہدف بنانا شروع کر دیا ہے،  جس سے نتن یاہو کے امن    نہیں غزہ کو ملیا میٹ کرنے  کے درپے ہونے کا  مظاہرہ ہوا ہے۔

سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ  ۔۔

اسرائیل 7 اکتوبر سے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ حملوں میں اب تک 35 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں،  اسرائیل خواتین اور بچوں، عام شہریوں کا اندھا دھند قتل عام کر رہا ہے۔ قبضے کے آغاز سے لے کر ابتک، اسرائیل کا مقصد غزہ کو ناقابل رہائش بنا نے کی حد تک  شدید بمباری کرتے ہوئے  یہاں کے عوام کومصر ی جزیرہ نما سینائی کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ اس تناظر میں غزہ میں آخری مضبوط گڑھ رفح بھی اسرائیل کے نشانے پر ہے۔

رفح مصر سے متصل غزہ کے سرحدی علاقے میں سرحدی چوکی  کےبھی واقع ہونے والا ایک علاقہ ہے۔ درحقیقت یہ اسرائیل کی ناکہ بندی کے بر خلاف غزہ کا چاہے جزوی طور پر ہی کیوں نہ ہو دنیا کے  ساتھ رابطے کا واحد دروازہ تھا۔بین الاقوامی امداد کا بڑا حصہ یہیں سے گرزتا تھا۔ علاوہ ازیں  اسرائیل کے قدم بہ قدم بڑھتے ہوئے قبضے اور قتل عام کے پیش نظر15 لاکھ  سے زائد غزہ کے باشندوں نے رفح کے علاقے میں پناہ لے رکھی ہے۔ اب اسرائیل رفح کو نشانہ بنا کر ایک بڑے قتل عام کی تیاری  میں ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب حماس نے مصر اور قطر کی ثالثی میں طویل عرصے سے جاری جنگ بندی کے مذاکرات میں مثبت موقف کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی رائے عامہ کے سامنےمعاہدے کی شرائط کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے، تو اسرائیل نے اس معاہدے کی شرائط کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے رفح پر حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ زمینی اور فضائی دونوں  جانب  حملے کرنے والی اسرائیلی فوج کی بکتر بند گاڑیوں نے  رفح سرحدی چوکی پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ اس طرح مصر سے آنے والی امداد کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ رفح  پر بڑھتے ہوئے حملوں سے دسیوں ہزار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔   ایک مختصر علاقے میں ڈیڑھ ملین لوگ موجود ہیں اور اسرائیل جان بوجھ کر رفح کو نشانہ بنا کرغزہ کے باشندوں کو مصر اور جزیرہ نما سیناء میں جلاوطن کرنا چاہتا ہے۔ یہ کھلے عام ملک بدری اور نسل کشی کی کوشش ہے۔ امریکہ جیسے ممالک جو اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں، وہ بھی غزہ پر حملے روکنے کے لیے نیتن یاہو پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں، تاہم  اسرائیل اور نیتن یاہو کی جنگی کابینہ وسیع پیمانے پر قتل عام کرنے پر اٹل دکھ رہی ہے۔ اگرچہ مختلف ممالک بالخصوص ترکیہ نے بھرپور کوششیں کی ہیں لیکن یہ  بدقسمتی سے اسرائیل کو روک سکنے والی کسی مساوات  کو تشکیل دینے میں قاصر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے درد کو سمجھنے والے لوگوں کی طرف سے  دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے  بھی اسرائیل کو روکنے سے قاصر ہیں۔ جیسا کہ ترک وزیر خارجہ حاقان فیدان  کا کہنا ہے اسرائیل کو  چاہے جبری طور پر بھی کیوں نہ ہو،   روکنا  لازمی ہے۔



متعللقہ خبریں