تجزیہ 14

ترکیہ میں بلدیاتی انتخابات کے غیر متوقع نتائج اور آک پارٹی کی تنزلی

2125466
تجزیہ 14

ترکیہ میں 31 مارچ 2024 کے بلدیاتی انتخابات جمہوری پختگی کی فضا میں سر انجام پائے۔ رائے دہی  کے نتائج کے ذریعے سیاسی  کشمکش کو تعین کیا جانا ترکیہ میں جمہوریت کے استحکام کے ایک نئے اشارے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ انتخابات میں، جہاں شرکت کی شرح 78.55 فیصد رہی، ریپبلیکن پیپلز پارٹی نے پہلی پارٹی کے طور پر 37.76 فیصد ووٹوں کے ساتھ 14 میٹروپولیٹن شہروں اور 21 چھوٹے شہروں میں فتح حاصل کی۔توجہ طلب معاملات میں سے  ایک کم ٹرن آؤٹ  ہونا  اے کے پارٹی کے ووٹروں میں کمی کا ایک اہم سبب ہے۔  کئی ایک نقطہ نظر سے  بلدیاتی انتخابات کے نتائج ،ترکیہ کے سیاسی عمل پر اثر انداز ہونے کا قوی امکان نظر آتا ہے۔

سیتا سیکیورٹی ریسرچ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع پر تجزیہ ۔۔۔

CHP نے اپنے ووٹوں کی تعداد  میں33 لاکھ کا اضافہ کیا ہے تو آک پارٹی  کےووٹوں میں اس سے قبل کے انتخابات کے مقابلے میں 42 لاکھ کی کمی آئی ہے۔ ایسا دکھتا ہے کہ میٹروپولیٹن شہروں میں "بنیادی اتحاد" کے ہدف نے کام کیا ہے ، اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اورگڈ  پارٹی کے زیادہ تر ووٹ CHP امیدواروں کوگئے ہیں۔

CHP اپنے ووٹروں کو کافی حد تک یکجا  کرنے میں کامیاب رہی اور اپنے سے قریب سیاسی جماعتوں کی مضبوط حمایت حاصل کر تے ہوئے  اپنی تاریخ میں کبھی بھی نہ پہنچنے والی سطح سے ہمکنار ہوئی۔  ان نتائج پریہ کہا جا سکتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں معاشی صورتحال پر ردعمل سامنے آیا ہے۔ CHP 2019 اور 2023 کے اتحاد کو اگرچہ ایک مختلف ماڈل کے ساتھ بھی کیوں نہ ہو  اپنے ووٹروں کے سامنے جاری رکھنے میں کامیاب رہی۔

میٹروپولیٹن شہروں کے علاوہ، CHP کا بعض قدامت پسند نظریات کے حامل اناطولیائی شہروں میں بلدیات کا حصول ایک نئی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ CHP کے چیئرمین اوزیل نے انتخابی نتائج کو "ایک نئے سیاسی ماحول کا دریچہ کھولنے" اور اس کے علاوہ "تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک سنگ میل" قرار دیا ہے۔ تبدیلیوں کے دعوے کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرنے والی  ریپبلیکن پیپلز پارٹی کی  نئی انتظامیہ  آیا کہ اس رجحان کو کسی نئی مفاہمت میں  بدل سکتی ہے کہ نہیں، اس کا مشاہدہ آئندہ کے برسوں میں ہو گا۔

مئی 2023 کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی فاتح اے کے پارٹی حالیہ  بلدیاتی انتخابات میں 35.48 فیصد ووٹوں کے ساتھ، 12 میٹروپولیٹن شہروں اور12 چھوٹے شہروں  میں اپنی نمائندگی کے ساتھ اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار دوسرے نمبر کی  پارٹی بنی ہے۔ایسا 2002 کے بعد پہلی بار ہوا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ غیر حاضر اور کالعدم قرار دیے گئے ووٹوں کی تعداد ڈیڑہ کروڑ تک  رہنے والے ان انتخابات میں اے کے پارٹی کو اپنے  ووٹروں کے غیر متوقع ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس تناظر  میں اک پارٹی کے ووٹروں میں سبق دینے  کی سوچ کے غالب آنے کا   مشاہدہ کیا  جا سکتا ہے۔ کورونا وبا  کے بعد سے ابتک  معیشت میں گہرے ہوتے مسائل اور ان کے حل میں پیش رفت  کی عدم موجودگی  کو اس صورتحال کی سب سے بڑی وجہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک لحاظ سے ایسا لگتا ہے کہ مئی 2023 اور مارچ 2024 کے انتخابات نے معاشی مسائل کویکجا کیا ہے۔

 اے کے پارٹی کے ووٹروں کے ردعمل کو سمجھنے کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ صوبے کی بنیاد پر امیدواروں کے پروفائلز،  نئی رفاہ پارٹی کی انتخابی مہم اور انتخابات میں غالب گفتگو کی کمی جیسے مسائل بھی نتائج پر  موثر رہے ہیں۔

صدر ایردوان کا  انتخابات کی شب  اپنے مخصوص بالکونی خطاب  میں 31 مارچ کے انتخابات کو "اختتام نہیں بلکہ ایک اہم موڑ" کے طور پر بیان کرنا ، انتخابی  نتائج کو تبدیلی کے لیے ایک مشعل راہ کے طور  استعمال  کرنے کا اشارہ دیتا ہے۔ایک بار پھر قومی  ارادے کااحترام کرنے کا مظاہرہ کرنے والے ایردوان نے اپنی تقریر میں ایک جامع لہجے  میں جمہوریت کے فوائد کے بارے میں بات کی۔

انہوں نے اے کے پارٹی کی تجدید اور سبق حاصل کرنے کی ذمہ داری کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا  کہ ہم "کھلے طریقے خود تنقید" کریں گے۔

اگلے چار سال کی کاررائیوں کے دور کو دوبارہ سے تیز رفتاری کے ساتھ جاری رکھنے کا عندیہ دینے والےصدر ایردوان نے  ممکنہ قبل از وقت انتخابات کے مباحثوں کو بے بنیاد کیا اور اپنی بنیاد اور  اپنے سیاسی ڈھانچے کی حوصلہ افزائی کی۔ 31 مارچ کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات، جو کہ اے کے پارٹی کے لیے ایک "ٹرننگ پوائنٹ" اور CHP کے لیے ایک "سنگ میل" ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ترکیہ 2028 تک ایک انتہائی فعال  دور سے گزرے گا۔

اگر حکمران جماعت آک  پارٹی، تجدید کو یقینی بناتی ہے اور کم آمدنی والے لوگوں کے حق میں آمدنی کی تقسیم کو بہتر بناتی ہے، تو یہ  ردعمل کا مظاہرہ  کرنے والے ووٹروں کو واپس اپنی جانب کھینچ  سکتی ہے۔ دوسری طرف، CHP  کو اب ان انتخابات میں  اپنی  کامیاب پوزیشن کو مستحکم کرسکنے کے لیے ایک بھاری سیاسی بوجھ کو سنبھالنا ہو گا۔



متعللقہ خبریں