ہماری بہادر عورتیں۔07

تاریخ 26 جون 1968۔۔۔اُس دن اسٹیڈیئم کے تماشائیوں کو، میدان کے کھلاڑیوں کو یہاں تک کہ مجھے تک کو معلوم نہیں تھا کہ ہم ایک تاریخی لمحے سے گزرنے والے ہیں

2102279
ہماری بہادر عورتیں۔07

تاریخ 26 جون 1968۔۔۔اُس دن اسٹیڈیئم کے تماشائیوں کو ، میدان کے کھلاڑیوں کو یہاں تک کہ  مجھے تک کو معلوم نہیں تھا کہ ہم ایک تاریخی لمحے کے شاہد بننے جا رہے ہیں۔ میچ کی ریفری 'درخشاں آردا' میدان میں اُتری ۔ یقیناً اس وقت میں اس کے گلے میں لٹک رہی تھی۔ سیٹی کے بغیر تو ریفری نہیں ہوتا ناں۔ درخشاں آردا نے مجھے بجایا اور میچ شروع ہو گیا۔

سالوں بعد اسی درخشاں آردا کا نام 13 دسمبر 2018 کے فیفا ورلڈ کپ میں بحیثیت دنیا کی پہلی خاتون ریفری  کے ریکارڈ کر لیا گیا۔

آئیے اب میں آپ کو ترکیہ کے لئے سرمایہ فخر اس شاندار عورت  کی کہانی سُناتی ہوں۔

 

درخشاں آردا 1945 میں ضلع ایدرنے میں پیدا ہوئی۔ پرائمری، مڈل اور ہائی ا سکول کی تعلیم ایدرنے میں ہی مکمل کی اور تعلم و تعلیم کے شعبے میں یونیورسٹی تعلیم حاصل کر کے استانی کی ڈگری لے لی۔ کم عمری میں ہی اس نے پہلے والی بال سے اور بعد میں باسکٹ بال سے دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔

فٹبال کے ساتھ لگاو اور پہلی خاتون ریفری بننے کی کہانی کا آغاز درخشاں کے کھیلوں کے استاد طارق یاماچ  کا مرہونِ منّت ہے۔ طارق یاماچ نے درخشاں کو فٹبال ایمپائرنگ اسکول میں داخلہ لینے پر قائل کیا ۔ اس  رہنمائی اور حوصلہ افزائی  کے نتیجے میں 1967 میں درخشاں نے ریفری کا کورس کامیابی سے مکمل کر لیا۔

 

اب اس کے پاس ریفری کی سند تھی اور  وہ سبزگراونڈ میں نکلنے کے لئے تیار تھی۔ میں نے بھی اس پہلے میچ میں درخشاں کے ساتھ 90 منٹ گزارے اور اس طرح ہم ایک دوسرے سے متعارف ہوئیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ابھی کل کی بات ہو۔۔۔ میچ، قارابیوک فولاد کلب اور جینڈر میری فورس کلب کی ٹیموں کے درمیان کھیلا جا رہا تھا۔ اس میچ میں درخشاں بطور سائیڈ ریفری کے فرائض ادا کر رہی تھی۔ میچ کے پہلے نصف میں درخشاں ہیجان کے باعث دائیں بائیں بھاگنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکی۔ میں بھی اس کے گلے میں جھُول جھُول کر سونے ہی والی تھی کہ میچ کے مِڈل ریفری نے درخشاں کی ہمّت بندھائی۔ میچ کے دوسرے نصف میں نوجوان درخشاں نے خود کو سنبھالا اور ہم نے مِل کر اچھی کارکردگی دِکھائی۔

 

کچھ عرصے بعد درخشاں ترقی کر کے مِڈل ریفری بن گئی۔ پہلے پہل اس نے دوستانہ میچوں کے لئے سیاہ کِٹ کے ساتھ میچ کروائے اور بعد میں ملکی سطح پر کھیلے جانے والے میچوں کی ریفری بن گئی۔ جی بالکل ٹھیک سمجھے آپ ۔۔۔ اس دور میں ترکیہ میں ہی نہیں دنیا بھر میں تماشائی فٹبال میچ میں  خاتون ریفری کو دیکھنے کے عادی نہیں تھے۔  اگرچہ یہ صورتحال معمول سے ہٹ کر تھی لیکن  میں نے درخشاں کے ساتھ نہایت خوشگوار وقت گزارا اور بہت خوبصورت یادیں جمع کیں۔

 

مثلاً ایک دفعہ میچ سے قبل ٹیم کے کپتان نے اُسے پھول پیش کئے اور نہایت جینٹل مین  شکل میں اس کا ہاتھ چُوما۔ اب میں آپ کو اور بھی دلچسپ یاد بتانا چاہتی ہوں۔ درخشاں کے قریب ترین ہونے کی وجہ سے میں  باآسانی یہ کہہ سکتی ہوں کہ جو کھلاڑی، مرد ریفریوں کے فیصلوں پر، سخت اعتراض کرتے تھے وہ بھی درخشاں کے کھِلائے ہوئے میچوں میں شروع سے آخر تک ایک لمحے کے لئے بھی کوئی خلافِ قانون حرکت نہیں کرتے تھے۔ جو بھی ہو ان کے سامنے صرف ایک عورت ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ بحیثیت ریفری اس کے فیصلے بھی ہر ایک کے لئے محترم تھے۔

 

لیکن جس میچ پر میں نے سب سے زیادہ فخر محسوس کیا  وہ 26 جون 1968 کا میچ تھا۔ یہ میچ گلاٹا سرائے فٹبال کلب کے ناقابلِ فراموش کھلاڑی احمد برمان کا جُوبلی میچ تھا۔ اس دن کا میچ گلاٹا سرائے کلب کی ٹیم  اور سلیم سوئیدان، ارجان آق تونا، یلماز شن، جان بارتو، متین اوکتائےاور لفٹر کیوچک آندونیادس جیسے اپنے دور کے اسٹار فٹبالروں پر مشتمل ٹیم کے درمیان کھیلا جا رہا تھا۔

یہ میچ، درخشاں آردا کی جمع کروائی گئی درخواست کے ساتھ 13 دسمبر 2018 کو فیفا کی طرف سے دنیا کی پہلی خاتون ریفری  کے کھلوائے گئے میچ کی حیثیت سے ریکارڈ کا حصّہ بن گیا۔ اس جدوجہد میں اس کے ساتھ ہونے کی وجہ سے قدرتی طور پر میں بھی خود پر بہت فخر محسوس کر رہی تھی۔

 

1972 سے ہم نے درخشاں کے ساتھ جرمنی کے شہر میونخ میں سکونت اختیار  کر لی اور 30 سال تک یہاں ریفری کا پیشہ اختیار کئے رکھا۔ لیکن اب میں تھک چُکی تھی۔ ہم دونوں کے لئے اس پیشے کو الوداع کہنے کا وقت آ گیا تھا۔ ایسے میں مجھے سب سے زیادہ آزردہ کرنے والی سوچ یہ تھی کہ درخشاں مجھے اور ریفری شپ کے دیگر سامان کو کسی ڈبے میں بند کر کے کسی کونے میں رکھ دے گی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس کی جگہ اس نے غریب بچوں کی مدد کے لئے ہمیں کھُلی نیلامی میں فروخت کر دیا۔ اس طرح ہمارے وجود سے نہ صرف مفلس بچوں کو فائدہ پہنچا بلکہ ہم بھی اپنے قدرشناسوں کے پاس پہنچ گئے۔ اس پہلی ریفری عورت نے اپنے منفرد فیصلے سے دوبارہ مجھے حیران کر دیا تھا۔ ایک دوسرے سے جُدا ہونے کے بعد بھی مجھے اِدھر اُدھر سے اس کی خبریں ملتی رہتی تھیں۔ درخشاں ریٹائر ہونے کے بعد بھی اپنے شوق سے دُور نہیں رہ سکی اور مزید سات سال تک بویریا فٹبال فیڈریشن  کی ڈسپلن کمیٹی میں فرائض سرانجام دیتی رہی۔

درخشاں آردا  کی سیٹی کی حیثیت سے، ریفری شپ کے دوران اس کا ساتھ دینے کی وجہ سے، میں بھی اس پہلی خاتون ریفری کی شکر گزار ہوں۔

 

ہم آج کا پروگرام ،صرف دنیا کی پہلی خاتون ریفری درخشاں آردا کے ہی نہیں ان تمام انسانوں کے نام کرنا چاہتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں پیشہ عورت مرد کی تفریق نہیں کرتا۔

 



متعللقہ خبریں