تجزیہ 30

سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی میں چین کا کردار

1964751
تجزیہ 30

عوامی جمہوریہ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں 6 تا 10 مارچ کو سرانجام پانے  والے مذاکرات میں  لیے گئے  فیصلوں کے مطابق  دونوں ممالک  کے سفارتخانے  دو ماہ کے اندر فعال بن جائینگے۔ علاوہ ازیں دونوں ممالک ایران کے اصلاحات  پسند صدر محمد خاتمی ( 1997-2005) کے دور میں سعودی عرب کے ساتھ طے پانے والے سیکیورٹی معاہدے( 2001)   اور اقتصادیات سمیت تعلیم، ثقافت، ٹیکنالوجی اور صحت جیسے متعدد شعبوں پر محیط  تعاون معاہدے( 1998) کو جانبر کرنے کا فیصلہ  کیا  گیا۔ چینی صدرِ مملکت شی جن پنگ کی کوششوں سے منعقدہ مذاکرات میں سعودی عرب کی نمائندگی وزیر ِ مملکت الا عبان نے   جبکہ ایران کی نمائندگی اعلی کونسل کے سیکرٹری شمہانی  نے کی۔

سیتا سیکیورٹی  ریسرچ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضو ع پر جائزہ ۔۔۔

مذاکرات کے کامیابی سے ہمکنار ہونے کے نتیجے میں  جاری کردہ مشترکہ  اعلامیہ میں دونوں ممالک  کے اس عمل میں مثبت کردار ادا کرنے کا شکریہ ادا کیا۔ تا ہم ،

تاہم، یہ سوال کہ اور عراق یا عمان کیوں نہیں  تو  آخری لمحوں میں اس  مساوات میں شامل ہونے والے چین نے اس میں کامیابی حاصل کی تھی، اس پر  غور کرنے کا تقاضا پیش کرتا ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرتے  وقت، چین کے عالمی بالادستی کی حامل  طاقت بننے کے وژن اور مشرق وسطیٰ میں اپنے اثرِ رسوخ کو قائم کرنے کی  اس کی حکمت عملی کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

اس چیز کا بار ہا تعین کیا گیا ہے کہ چین نے   عالمی طاقت بننے  کے ویژن میں مستقبل قریب تک  معاشی  پہلو کا پلو بھاری  رکھا ہے  اور بیجنگ سیاسی، عسکری اور سفارتی شعبہ جات میں  پیچھے رہنے کی حکمت ِ عملی پر  عمل درآمد کرتا  رہا ہے۔ تا ہم حالیہ چند برسوں میں چین نے  وسطی ایشیا، مشرق ِ وسطی اور حتی یوکرین مساوات میں  کہیں زیادہ  نمایاں سیاسی اقدامات اٹھانے شروع کر دیے ہیں۔  ان کے اہم ترین اسباب میں سے ایک امریکہ کے ساتھ طاقت کی رقابت میں  مسلسل التوا کا شکار ہونے والے عسکری پہلو   کی جانب سے سرکنا  ہے اور دوسرا سبب اقتصادی سرمایہ کاری اور اس کے پھیلاو کو سیاسی۔ عسکری شعبوں میں  بھی قتویت دیے جانے کی ضرورت کا منظر ِ عام پر آنا ہے۔

 اس حوالے سے حالیہ برسوں میں چین اور مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی بات چیت قابل ذکر ہے۔چین کو خطے کی جانب مائل کرنے والے اہم ترین عناصر میں سرِ فہرست  فطری طور پر بلند سطح کی توانائی کی ضرورت  آتی ہے۔  پیٹرول کے معاملے میں  دیگر ممالک پر انحصار کرنے والا چین  سعودی  اور ایرانی پیٹرول کے  نمایاں  خریداروں میں شامل ہے۔ حتی یہ سب سے زیادہ پیٹرول  سعودی عرب سے خریدتا ہے۔ اس ملک کو  سعودی  عرب کی تقریباً 1.75 ملین بیرل یومیہ پیٹرول  کی فروخت کے بعد ڈیڑہ ملین بیرل پیٹرول کے ساتھ روس کا نمبر آتا ہے۔  جبکہ پابندیوں کی بنا پر سرکاری طور پر تعین  نہ  کیے جا سکنے والا ایران،  مختلف اندازوں کے مطابق یومیہ  ساڑھے سات لاکھ  اور  1.25 ملین بیرل    کےد رمیان  چین کو یومیہ پیٹرول فروخت کرتا ہے۔ یہ اعداد و شمار ایران کو چین کے تیسرے بڑے برآمد کنندہ ملک  کی حیثیت دلاتے ہیں تو ایران    سب سے زیادہ  اسی ملک کو اپنا پیٹرول فروخت کرتا ہے۔  باور رہے کہ سال 2021 میں چین اور ایران کے درمیان 25 سال کے لیے 400 ارب ڈالر کی مالیت کا پیٹرول معاہدہ طے پایا تھا۔

اصل سوال یہ ہے کہ چین کو ایران۔ سعودی عرب کشیدگی  میں ثالثی کا کردار ادا کرنے  پر مائل کرنے کے اسباب کیا ہیں؟    ہمارے ذہنوں میں آنے والا پہلا جواب کچھ یوں ہے: چین  اپنی اقتصادی پالیسیوں کی سیاسی پالیسیوں کے ساتھ  یکسانیت قائم کرنے  اور  ان دونوں جہتوں  کو   مضبوطی دلانے کا ہدف رکھتا ہے۔ اولین طور پر  ہمیں اس چیز کے تعین کہ چین ان دونوں  ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش  رکھتا ہے ،  پر  بات کرنی چاہیے۔  ایران اور سعودی عرب کے درمیان  تناو بلواسطہ طور پر  چین کو بھی متاثر کر رہا ہے۔  اس  حقیقت کا اندازہ گزشتہ برس ماہ دسمبر میں  شی جن پنگ کے  دورہ ریاض کے دوران   ہوا تھا۔   بیجنگ۔ ریاض دو طرفہ مذاکرات اور  چین۔ خلیج تعاون کونسل کے  سربراہی اجلاس کے بعد جاری کردہ بیانات  نے ایران ۔ چین تعلقات میں قدرے کشیدگی پیدا کی۔ ایران کے سخت گیر   بیانات کے بعد چین کی سفارتی  کوششوں اور ایرانی صدر ا براہیم رئیسی کے دورہ بیجنگ سے  اس تناو میں  گراوٹ لانے میں کامیابی حاصل ہوئی تھی  تو بھی یہ  حقیقت آشکار تھی کہ تہران۔ ریاض تعلقات میں بحالی  نہ ہونے تک  بیجنگ کا اس قسم کے حالات سے دو چار ہونا نا گزیر تھا۔  مزید برآں یہ کشیدگی  چین کے ان دونوں ممالک کے ساتھ  تعاون کی استعداد  کو محدود سطح  تک رہنے کا موجب بن رہی تھی۔

بلا شبہ  مذکورہ  دو اہم ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری ، خطے  کے تمام تر ممالک میں ایک مثبت پیش رفت  کا تاثر  پیدا ہونے کا موجب بنی۔ توقع کی جاتی ہے کہ یہ مثبت پیش رفت  خطے میں تنازعات اور کشیدگی    میں مثبت اثرات پیدا کرے گی۔ یمن میں سالہا سال سے پراکسی جنگ  کے ماحول میں ہونے والے ایران اور سعودی عرب  کی جانب سے اس جنگ کو ختم کرنے کے اقدامات اٹھانے کی  توقع   کرنا   مبالغہ آرائی نہیں  ہو گا ۔  تا ہم  ممکنہ طور پر یہ عمل اتنا آسان نہیں ہو گا۔

دوسری طرف دیکھا جا رہا ہے کہ شام میں بھی اسی طرح امن اور سیاسی تنظیم نو کا مرحلہ وار عمل جاری ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب روس اور ایران کی ثالثی میں ترکیہ اور شام کے تعلقات معمول پر آنا شروع ہوئے ہیں، ایران سعودی عرب کے تعلقات معمول پر آنے کے اثرات کی شام میں  بھی توقع کی جانی چاہیے۔اس   پیش رفت کے فوراً بعد سعودی عرب   کی جانب سے شام کے ساتھ سفارتی تعلقات کو  بحا ل  کرنے عمل کو شروع کرنا باہمی تعلقات کے معمول پر آنے کے بہاو کے جاری رہنے  کا اشارہ  دے رہا ہے۔



متعللقہ خبریں