تجزیہ 14

ترکیہ کی شمالی شام میں دہشت گرد تنظیم PKK۔ وائے پی جی کے خلاف ممکنہ بری کاروائی پر ایک جائزہ

1914091
تجزیہ 14

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وائے پی جی  کے  پہلے تقسیم اور بعد میں اونجو پینار اور قارقامش  میں  دہشت گرد حملوں کے بعد ترکیہ  کے شام میں کسی نئے  فوجی آپریشن کی تیاری میں ہونے نے  قطعی ماہیت اختیار کر لی ہے۔  تقسیم  دہشت گرد حملہ پی کے کے     کی ایک نئے طرز کی دہشت گرد کاروائیوں  کی عکاسی کرنے کے اعتبا ر سے انتہائی نازک ہے۔ حملہ آور کی  کم مدت کے اندر گرفتاری نے پی کے کے کے تاثرات کو آپریشن اور پروپیگنڈہ بنا کر عوام کو گمراہ کرنے کے امکان کو ختم کردیا۔ ترکیہ  نے اس  حملے کے جواب میں پنجہ ۔ شمشیر آپریشن کا آغاز کیا اور عراق اور شام میں پی کے کے- وائے پی جی عناصر کو نشانہ بنایا۔ آپریشن فضائی کارروائیوں کے طور پر انجام دیا  جانے والا یہ آپریشن کئی پہلووں کے اعتبار سے پہل کی حیثیت  رکھتا ہے۔ دوسری جانب سلیمانیہ سمیت 70 کلو میٹر کی گہرائی   تک اندر جانے کا  ہدف مقرر کیے جانے کو بالائے طاق رکھنے سے  اس حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ترکیہ، وائے پی جی کو   شام   کے کسی بھی علاقے میں نشانہ بنا سکتا ہے۔  فضائی کاروائی کے بعد بری آپریشن  کے  متحرکات قدرے مختلف ہیں۔

سیتا  سیکیورٹی  ڈائریکٹر  پروفیسر ڈاکٹر  مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع پر تجزیہ ۔۔

بری کاروائیوں  کی کیونکر  ضرورت ہونے  پر مبنی سوال قدرے اہم ہے۔  ہر چیز سے پہلے  وائے پی جی   کے شام کی زمینی سالمیت کے لیے  عدم استحکام کا عنصر ہونے کی حقیقت آشکار ہے۔ وائے پی جی  شامی قومی فوج کے  متعین ہونے والے عفرین ، جرابلس، عزیز اور الا باب  جیسے   گنجان آباد علاقوں پر باقاعدگی سے حملے کرتی ہے اور شہریوں کو نشانہ بناتی ہے۔  وائے پی جی  بیک وقت  عین العرب  سے ترکیہ کی حدود کے اندر بھی حملوں کی مرتکب ہو رہی  ہے۔  وائے پی جی   کے  اپنے  زیر ِ کنٹرول علاقوں  میں انسانی جرائم  کا ارتکاب کرنے  کی بھی بین الاقوامی  تنظیمیں   رپورٹنگ  کرتی رہتی ہیں۔اس نکتے پر یہ بھی کہنا بے جا نہ ہو گا کہ  یہ دہشت گرد تنظیم کسی ممکنہ  حل کے تناظر میں شامی  زمینی سالمیت کے لیے  بھی خطرہ تشکیل  دیتی ہے۔  کیونکہ  وائے پی جی کی خود مختار انتظامیہ کی مفاہمت  شام  میں مسئلے کے حل کو  ناممکن  بنا رہی ہے۔

ترکیہ خطے میں استحکام کے قیام،   اسے  دہشت گردی سے پاک کرنے اور ترکیہ میں  مقیم  پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی زمین ہموار کرنے کے لیے  بری   کاروائی کے لازمی ہونے کی سوچ رکھتا  ہے۔  کیونکہ سال 2019 میں  ترکیہ  کی جانب سے رو سے  اور امریکہ کے ساتھ طے کردہ معاہدے پر تاحال عمل درآمد نہیں  ہو سکا۔  اس معاہدے کی  روس سے وائے پی جی     ترکیہ کی سرحدوں سے 30 کلو میٹر تک   پیچھے ہٹ جائیگی۔  اور اس کے خالی کردہ  علاقوں میں  شامی انتظامیہ کے   فوجیوں کو متعین کیا جائیگا، اس طرح علاقے  میں سلامتی     کا ماحول قائم ہو جا ئیگا۔  لیکن  ان میں سے کسی ایک  عوامل پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔  لہذا اب ترکیہ کے لیے  فوجی کاروائی واحد متبادل  کے طور پر  سامنے آ رہی ہے۔

تو ترکیہ کس طرح کی فوجی کاروائی کرے گا؟  اس نکتے پر  چند منظر ناموں   کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔  پہلے   منظر نامے  کے  مطابق اولین طور پر  تل رفعت  اور منبج  میں وائے  پی جی کے  وجود کو ہدف بنایا جا ئیگا۔  اس علاقے کی آزادی  دریائے فرات کے مغربی کنارے  پر واقع  علاقوں میں استحکام کے قیام کے لیے  حد درجے اہم ہے۔  بعد ازاں  ترکیہ کی سرحدوں سے متصل  عین العرب  کو نشانہ بنایا جا ئیگا۔  عین العرب  شام کا  عالمی میدان   میں معروف ترین مقامات میں سے ایک  ہے۔  داعش کے اس شہر پر قبضے کے بعد  علاقے سے ہزاروں کی تعداد میں  مہاجرین   ترکیہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے ، بعد ازاں  وائے پی جی نے  اس مقام کو اپنے  قبضے میں لے لیا تھا۔  اس مرحلے پر  ترکیہ  کا آپریشن  عالمی سطح پر  ردِ عمل کا موجب  بن سکتا ہے۔  تا ہم  ترکیہ   یہاں سے وائے پی جی کے وجود کو ختم کرنے پر   اٹل دکھائی دیتا ہے۔

دوسرا منظر نامہ یہ ہے کہ  ترکیہ  دریائے فرات کے مشرق  میں   سرحدی  علاقوں میں  فوجی کاروائی  کرتے ہوئے اپنی حرکات و سکنات کو وسعت  دے گا۔    تا ہم  ان عوامل کے  ساتھ ساتھ وائے پی جی  کا ساتھ  شامی  انتظامیہ کی طرف سے دیے جانے کو مد نظر رکھا جائے تو  یہ کہنا ممکن ہے کہ  فوجی کاروائی کا امکان  معدوم ہے۔  فوجی کاروائی کے بجائے علاقے میں اسد انتظامیہ اور ترکیہ کے مابین   کوئی معاہدہ   ممکن ہے  اور  ان مقامات کا کنٹرول ماضی کی طرح  شامی انتظامیہ کے  ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے۔

آپریشن کی ایک اور جہت ترکیہ  کے آپریشن کے  حوالے سے غیر ملکی اداکاروں کا نقطہ نظر ہے۔ روس کے یوکیرین جنگ  کے باعث  ترکیہ کے ساتھ باہمی تعلقات کو مضبوط رکھنے   کی خواہش  رکھنے، اس بنا پر    ترکیہ کی شام میں  بری کاروائی کی مکمل طور پر مخالفت نہ کرنے  کا  بھی مشاہدہ  ہو رہا ہے۔  اسی طرح  اس سے پیشتر کے آپریشنز کی طرح  امریکی موقف کچھ زیادہ سخت  نہیں ہے،  اس تبدیلی کو بھی  یوکرین جنگ میں  ترکیہ  کی بڑھنے والی اہمیت سے وابستہ کیا جا سکتا ہے۔  گو کہ ایران   فوجی کاروائی کی مخالفت کرتا دکھائی  دے رہا  ہے تو  اس ملک  میں جاری  انارکی    ایران  کی  اولیت کو  بدل چکی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ حالات ترکیہ کے موقف  کے لیے ساز گار ہیں۔



متعللقہ خبریں