عالمی برادری نے شاخِِ زیتون آپریشن کی مخالفت نہیں کی، صدارتی ترجمان
عالمی برادری علاقے کی صورتحال کی ترکی کے لیے عجلیت کو سمجھنے سے قاصر رہی ہے تگا ہم ، اس نے ہمارے فوجی آپریشن کی مخالفت بھی نہیں کی

صدارتی ترجمان ابراہیم قالن کا کہنا ہے کہ شام کے علاقے عفرین میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے بعد ہم اس علاقے کو عفرین کے عوام کے حوالے کرنے کا مقصد رکھتے ہیں۔
جناب قالن نے شاخِ زیتون کاروائی کے معاملے پر بی بی سی ٹرکش سے انٹرویو میں بتایا ہے کہ "ہم قطعی طور پر شامی سرزمین پر اپنی نظریں نہیں رکھتے " ہماری یہ کاروائی کردوں یا پھر عفرین کے خلاف نہیں صرف اور صرف دہشت گرد تنظیم کے خلاف ہے۔"
انہوں نے کہا کہ الا باب اور جرابلس کی طرح ہم عفرین کو بھی آپریشن کی تکمیل پر عوام کے سپرد کر دیں گے، دہشت گرد تنظیم پی وائے ڈی /وائے پی جی نے گزشتہ ایک برس میں ترکی کو ہدف بنانے والے 700 سے زائد حملے کیے ہیں، ترکی اپنی سرحدوں کا تحفظ کرنے کا ذمہ دار ہے۔
قالن نے بتایا کہ عالمی برادری علاقے کی صورتحال کی ترکی کے لیے عجلیت کو سمجھنے سے قاصر رہی ہے تگا ہم ، اس نے ہمارے فوجی آپریشن کی مخالفت بھی نہیں کی۔
ترکی کے نیٹو سے انتہائی معمولی سطح کا تعاون حاصل کرنے پر زور دینے والے قالن نے یہ بھی واضح کیا کہ ترکی کے نیٹو سے دور ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ آپریشن روس، ایران اور عالمی اتحاد کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی شکل میں ہی کیا گیا ہے۔
ترجمان نے صدر رجب طیب ایردوان کے بیان کہ عفرین کے بعد منبچ کی بھی باری آئیگی پر سوالات کا جواب دیتے ہوئے اس بات کی یاد دہانی کرائی کہ امریکہ نے ڈیڑھ برس قبل دہشت گرد عناصر کو منبچ سے باہر نکالنے کا عندیہ دیا تھا تا ہم پی وائے ڈی / وائے پی جی ابھی تک اس علاقے میں ڈیڑے جمائے ہوئی ہے۔
شاخِ زیتون آپریشن کے جب تک جاری رہنے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دینے والے قالن نے بتایا کہ یہ کاروائی کئی ہفتوں تک جاری رہ سکتی ہے، تا ہم یہ ضرور کہہ سکتا ہوں ابھی تک ہم نے اہم سطح کی پیش رفت کی ہے۔