اقوام متحدہ مسئلہ کشمیرپرغیرموثر:رجائی کتان،مغرب خاموش:برہان قایاترک،ترکی کےمشکورہیں:سفیرپاکستان
اس سیمینار میں ایسام کے چئیرمین اور سابق وزیر توانائی اور قدرتی وسائل رجائی کتان ، ترکی میں پاکستان کے سفیر سہیل محمود اور وان سے رکن پارلیمنٹ برہان قایا ترک نے شرکت کی
ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں اقتصادی اور سماجی تحقیقاتی مرکز ایسام میں یومِ یک جہتی کشمیر کے موقع پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔
اس سیمینار میں ایسام کے چئیرمین اور سابق وزیر توانائی اور قدرتی وسائل رجائی کتان ، ترکی میں پاکستان کے سفیر سہیل محمود اور وان سے رکن پارلیمنٹ برہان قایا ترک نے شرکت کی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جانب رجائی کتان نے اقوام متحدہ کو کشمیر اور فلسطین سے متعلق قراردادوں پر عمل درآمد نہ کروانے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اقوام متحدہ اس معاملے میں غیر موثر ثابت ہوئی ہے۔
اس موقع پر ترکی میں پاکستان کے سفیر سہیل محمود نے خطاب کرتے ہوئے حکومتِ ترکی کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کرنے پر حکومتِ ترکی کا شکریہ ادا کیا۔
اس موقع پر وان سے رکنِ پارلیمنٹ برہان قایا ترک نے مغربی ممالک کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیارکرنے پر مغربی ممالک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
مسئلہ کشمیر، پاکستان، ہندوستان اور کشمیری حریت پسندوں کے درمیان مقبوضہ کشمیر کی ملکیت کا تنازعہ ہے۔ یہ مسئلہ تقسیم ہندوستان سے چلا آ رہا ہے۔ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور ہندوستان کے مابین تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ پہلی جنگ 1947، دوسری 1965 اور تیسری ا1999 میں لڑی گئی۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی سرحد جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ جس میں اکثر پاکستانی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند گروپوں میں کچھ گروپ کشمیر کے مکمل خودمختار آزادی کے حامی ہیں تو کچھ اسے پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ہندوستان پورے جموں اور کشمیر پر ملکیت کا دعوے دار ہے۔ 2010 میں ہندوستان کا کنٹرول 43 فیصد حصے پر تھا جس میں مقبوضہ کشمیر، جموں، لداخ اور سیاچن گلیشئر شامل ہیں جبکہ پاکستان کے پاس 37 فیصد حصہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی شکل میں ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر جموں و کشمیربرطانوی راج کے زیر تسلط ایک ریاست ہوتا تھا۔جس کی آبادی 95 فیصد آبادی مسلم تھی۔ جب ہندوستان کو تقسیم کیا جارہا تھا تو جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی وہ علاقے پاکستان اور جہاں ہندو اکثریت تھی وہ علاقے بھارت کو دیئے گئے۔کشمیر قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے یہاں پر عوام ریفرنڈم کروانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن بھارت کی جانب سے ریفرنڈم کے فیصلے کو قبول کیے جانے کے باوجود اس پر آج تک بھارت عمل درآمد کرنے سے کتراتا ہے ۔ اقوام متحدہ کی قرراردادوں کی منظوری کے باوجود کشمیر کے مستقبل کے بارے میں کوئی ریفرنڈم نہیں کرایا جاسکا ہے جس کی وجہ سے اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکا ہے اور دونوں ممالک تین بار اس کی وجہ سے جنگ کی لپیٹ میں بھی آچکے ہیں۔