سیر و سیاحت۔02

اپنے  سیاحتی رُوٹ کے دوسرے پڑاو پر آج میں اردن میں "حجاز ریلوے لائن کے عمان اسٹیشن " سے سفر شروع کر رہی ہوں

2235247
سیر و سیاحت۔02

اپنے  سیاحتی رُوٹ کے دوسرے پڑاو پر آج میں اردن میں ہوں۔

یہ صبح کے اوّلین لمحات ہیں اور میں عمّان کے جنوبی حصے میں شہر کی جدید عمارتوں کے درمیان وقت کے سامنے سینہ تانے کھڑی ایک عمارت کے سامنے ہوں۔  120 سالوں سے زیادہ عرصے سے صحرا کے وسط میں پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑی یہ عمارت "حجاز ریلوے لائن کے عمان اسٹیشن " کی عمارت ہے۔  1903 سے خدمات شروع کرنے والا یہ اسٹیشن سلطان عبدالحمید دوئم کے شاندار ریلوے لائن منصوبے کے اہم ترین اسٹیشنوں میں سے ایک ہے۔

 

حجاز ریلوے لائن المعروف "حمیدیہ حجاز ریلوے لائن"  عثمانی سلطان ' عبدالحمید' نے 1900 سے 1908 کے سالوں میں تعمیر کروائی ۔ دمشق سے مدینہ کے درمیان پھیلی ہوئی 1322 کلو میٹر  لمبی اس  ریلوے لائن کو محض ریل کی پٹڑی کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب کے صحرا کے سینے پر ثبت نقوش کی حیثیت سے دیکھنا ضروری ہے۔

 

حجاز ریلوے لائن کی لمبائی بعد میں کئے گئے اضافوں کے ساتھ    1900 کلو میٹر  تک پہنچ گئی اور اس پٹڑی نے صحرا کے وسط میں حقیقی معنوں میں ایک تہذیبی راہداری قائم کی۔ اس لائن  کے پورے راستے میں 2666 سنگی پُل ہیں جن میں سے ہر ایک  فن تعمیر کا  شاہکار ہے۔  لائن کے 96 اسٹیشنوں کے درمیانی سفر میں تعمیر کئے گئے سنگی پُل، آبی گزرگاہیں، 7 آہنی پُل،  پہاڑوں کو تراش کر بنائی گئی سرنگیں اور کاروانوں  کے لئے بنائے گئے راستوں میں سے ہر تعمیر اصل میں ایک مہر تھی جسے 'عثمانی  مہندسوں نے صحرا کے سینے پر ثبت  کر دیا تھا۔ سلطان عبدالحمید کی روشن خیالی اور دُور بینی محض ریلوے لائن تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ پوری ریلوے لائن کے ساتھ نصب کئے گئے ٹیلی گراف کھمبوں، صحرا کی خاموش وسعتوں کو استنبول سے منسلک کرنے کے دوران بدووں کے حملوں  کے مقابل تعمیر کئے گئے پولیس تھانوں  نے ریلوے منصوبے کے تحفظ کو یقینی بنایا۔ راستے بھر میں تعمیر کی گئی 7 چھوٹی جھیلوں، 37 پانی کے ذخیروں، 2 ہسپتالوں اور 3 ورکشاپوں نے پوری ریلوے لائن کو ایک زندہ اور مسلسل فعال عضو میں تبدیل کر دیا۔

 

حجاز ریلوے لائن کا مقصد اس دور کے دشوار گزار  سفرِ حجاز کو آسان بنانا اور  شام سے مدینہ  کے درمیان 40 روزہ اور شام سے مکّہ کے درمیان 50 روزہ دشوار گزار اور خطرناک سفر کو  مختصر کر کے 4 سے 5 دن کرنا تھا۔  یہی نہیں حج کے مصارف میں بڑے پیمانے پر کمی  اور نتیجتاً حاجیوں کی تعداد میں اضافہ بھی منصوبے کے مقاصد میں شامل تھا۔ لیکن اس وسیع و عریض منصوبے  کا مکّہ  تک رسائی کا ہدف مکمل معنوں میں حاصل نہ ہو سکا اور ریلوے لائن کا آخری اسٹیشن مدینہ  بن گیا۔

 

حجاز ریلوے لائن اصل میں عثمانی دورِ جدید کی طرف اٹھایا گیا ایک قدم  تھا۔ خدمات کے آغاز کے بعد اس ریلوے لائن نے حائفہ اور دمشق کے درمیان روزانہ سفر  شروع کر دیا۔ دمشق سے مدینہ کے درمیان ہفتے میں 3 دن مسافروں اور تجارتی سامان کو رسل و رسائل کی سہولت فراہم کی جاتی تھی اور بوقتِ ضرورت تعمیراتی سامان، عسکری لاجسٹک سامان کی نقل و حمل  اور حاجیوں  کی آمد و رفت  کے لئے اضافی ریلوے سفر بھی کئے جاتے تھے۔

 

آج ، 1903 میں اناطولیہ سے آنے والے ماہرینِ فن تعمیر کے ہنر مند ہاتھوں کی بنائی ہوئی، حجاز ریلوے لائن عمان ٹرین اسٹیشن کی عمارت اپنی تعمیراتی ظرافت و لطافت کے ساتھ  استنبول  کے 'سِرکے جی' ریلوے اسٹیشن  کی یاد دِلاتی ہے۔ اسٹیشن کے داخلی  اور واحد دروازے کی پیشانی پر عثمانی اور عربی زبان میں  رقم   ایک کتبہ نصب ہے جسے آج بھی باآسانی پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ کتبہ اصل میں اس عمارت کی شناختی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ کتبے پر نقش سلطان عبدالحمید دوئم کی مُہر  اور تاریخِ تعمیر  اس اسٹیشن کی ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط تاریخ  کی کہانی سُنا رہی ہے۔ اسٹیشن کی سب سے زیادہ جاذبِ نگاہ خاصیت اس کے چاروں کونوں  میں نصب نگرانی کے چبوترے ہیں۔ آٹھ کونوں والے یہ  چبوترے صرف حفاظتی نقطہ نظر سے ہی تعمیر نہیں کئے گئے بلکہ عمارت میں ہوا کی مسلسل گردش کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ چبوتروں کی چوٹیوں پر بنائی گئی چھوٹی چھوٹی کھڑکیوں  کو صحرائی ہوا کے عمارت میں داخلے کو آسان بنانے  کی شکل میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ان کھڑکیوں کی بدولت موسمِ گرما کی جھلسا دینے والی گرمی  میں بھی اسٹیشن کے اندر ٹھنڈی ہوا  کا گُزر  ہوتا رہتا ہے۔

 

اسٹیشن کے وسطی ہال میں اونچی چھتوں کے نیچے چلتے ہوئے  مجھے کسی دور میں یہاں تیز تیز قدموں سے چلتے حاجیوں، تاجروں اور مسافروں کا خیال آ رہا ہے۔ ایک وہ دور تھا جب یہاں ہر طرف گہما گہمی تھی اور ایک یہ دور ہے کہ ہر طرف خاموشی کا راج ہے۔ دیواروں  کو مزّین کرنے والے جیومیٹرک آرائشی ڈیزائن اور چینی کا کام استنبول کے ماہرینِ فن تعمیر  کے ہنر مند ہاتھوں کی کہانی سُناتے ہیں۔ ٹکٹ  گھر کی عقبی دیوار پر آج بھی آویزاں، عثمانی ٹرین کے سفر  کے اوقات  اور دیگر ضروری اعلانات کی تحریروں والا، بورڈ ایک منجمد گھڑی کا منظر پیش کر رہا  ہے۔

 

مشرقی حصّے کی طرف جائیں تو ہمارے سامنے اسٹیشن کا ٹیلی گراف  حصّہ آتا ہے۔ یہ ٹیلی گراف دفتر کسی زمانے میں استنبول سے مدینہ تک پھیلے مواصلاتی نیٹ ورک کا ایک اہم حصّہ تھا۔ دیواروں پر لٹکے مورس کوڈوں والے طریقہ ہائے  اوقات اور  پیتل کے ٹیلی گراف آلات اس دور میں ٹیکنالوجی کی سطح کو ظاہر کرتے ہیں۔

 

ریلوے اسٹیشن کے صحن میں واقع پانی کا ٹاور  صحرائی ماحول میں  فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس ٹاور کے نیچے واقع تالاب  سسٹم بارش کے پانی کو جمع کر کے موسمِ گرما میں پانی کی ضرورت کو پورا کرتا تھا۔ اسٹیشن کے مغربی حصّے میں واقع کاروان سرائے کے اونچی چھتوں والے کمرے اور صحن میں لگے فوارے  حاجیوں کو سفرِ حج کے دوران ایک پُر آسائش وقفے کی سہولت فراہم کرتے تھے۔ عمارت کا ہر گوشہ ، تزئین  و آرائش ہی نہیں اسٹیشن کو زیادہ فعال شکل میں چلانے کے حوالے سے بھی، عثمانی معماروں  کی مہارت  کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

 

یہ عمارت صرف ایک ریلوے اسٹیشن ہی نہیں  زیادہ غور سے دیکھا جائے تو اصل میں  یہ ایک تاریخ ہے جسے سنگ و آہن پر حرف حرف نقش کیا گیا  ہے۔ حجاز ریلوے عمان  اسٹیشن ، عثمانیوں کی اس زمین پر چھوڑی ہوئی قابلِ قدر میراث  میں سے ایک  ہے اور اردن کے قلب میں وقت کے سامنے سینہ سپر ہے۔

 

میں 'معان' کی طرف جاتے ہوئے پوری ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ بنے ہوئے چھوٹے اسٹیشنوں کو دیکھتی ہوئی  چل رہی ہوں۔ قاطرانہ اسٹیشن  کا پتھروں سے بنا پانی کا ذخیرہ اور ٹیلی گراف عمارت اپنے دور کی انجینئرنگ  کا ایک شاہکار ہے۔ بطن الغول اسٹیشن  پر  پہاڑوں کے درمیان نہایت مہارت سے بچھائی گئی ریلوے لائن، متعلقہ عمارتیں اور ملازمین کے کوارٹر عثمانیوں کی کامیاب منصوبہ بندی کا نمونہ ہیں۔ الخاصہ اسٹیشن کے قریب واقع سنگی  پُل اور  خمدار  پٹڑی اپنے دور کی جدید انجینئرنگ کی عکاسی کرتے ہیں۔

 

جیسے جیسے ہم پطرہ کے قریب پہنچتے جاتے ہیں ہمیں ان مشکلات کا زیادہ بہتر ادراک ہونے لگتا ہے جو ترک مہندسوں کو پیش آئی ہوں گی۔ جرمنوں کی تکنیکی مشاورت میں 'مہندس خانہ بری ہمایوں' سے فارغ التحصیل مہندسوں  کے ڈیزائن کردہ پلان میں ہر چٹان اور ہر وادی کو نگاہ میں رکھا گیا ہے۔ معمار کمال الدین کے شاگردوں میں سے مہندس خیری بے  کی ڈائری میں جن "معجزانہ راستوں" کا ذکر کیا گیا ہے وہ راستے اپنے پورے احتشام کے ساتھ میری نگاہوں کے سامنے آ رہے ہیں۔ پہاڑوں کو تراش کر بنائی گئی سرنگیں، بعض مقامات پر 60 میٹر تک پہنچے ہوئے پیچ دار راستے اور پتھروں سے بنائے گئے پُل اپنے دور  کے فنِ انجینئرنگ کے عکاس ہیں۔ پہاڑی علاقے میں پٹڑی بچھانے کے لئے اختیار کردہ مخصوص تکنیکیں موجودہ دور میں بھی انسان کو حیرت زدہ کرتی ہیں۔ پوری پٹڑی میں ہر 20 کلومیٹر مسافت پر ٹرین کی مرمّت اور دیکھ بھال کےلئے ایک مرّمت خانہ بنایا گیا ہے۔ یہ مرّمت خانے پتھروں سے بنے چھوٹے چھوٹے قلعوں کی طرح اور پانی کے ذخیروں، تعمیر و مرّمت  کی ورکشاپوں اور ملازمین   کے لئے کمروں پر مشتمل  ہیں۔  پطرہ۔معان  کا درمیانی حصّہ طرزِ تعمیر کے اعتبار سے پورے منصوبے کا دشوار ترین حصّہ اور اس کے ساتھ ساتھ عثمانی ماہرینِ  تعمیرات کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

 

اردن کے صحرا کا چپّہ چپّہ اس زمین پر عثمانیوں کے چھوڑے ہوئے گہرے نقوش کی یاد تازہ کرتا ہے۔ قصر الازراق  میں تعمیر کیا گیا کمپلیکس کلاسیکی عثمانی فوجی  طرزِ تعمیر  کی خصوصیات کا حامل ہے۔ خارجی فصیلوں کے کونوں پر واقع برج ، صحن کے اسلحہ ڈپو،  اصطبل، مسجد ،  حمام  اور کاروانوں کی گزرگاہوں  کے کنارے تعمیر کئے گئے کاروان سرائے اپنے دور کی سرگرم تجارتی  زندگی کی گواہی دیتے ہیں۔ خاص طور پر خان الزبیب  کے اسٹیشن  کی سنگی نہریں  اور صحن میں لگی پانی کی سبیل عثمانی دور کے فن تعمیر میں کاروان سراوں کے ڈیزائنوں  کی ترجمان ہیں۔ وادی روم کے دامنوں کے دفاعی اہمیت کے حامل مقامات پر پولیس چوکیاں بنائی گئی ہیں، چوکیوں کے ساتھ اطراف  کی نگرانی کے لئے برج  اور گھوڑوں  کے اصطبل بھی بنائے گئے ہیں۔ بعض چوکیوں میں چھوٹی مساجد اور چشمے بھی بنائے گئے ہیں جو اس بات کا اظہار ہیں کہ عثمانی محض عسکری ہی نہیں سماجی ڈھانچے کو بھی اہمیت دیتے تھے۔

 

اس کے بعد میں آخری اسٹیشن پر پہنچتی ہوں۔ بحیرہ احمر  کی نیلاہٹوں پر نگاہیں جمائے کھڑا عثمانی قلعہ کسی زمانے میں حاجیوں کے بحری سفر کی حفاظت کے لئے تعمیر کیا گیا ایک محتشم قلعہ تھا۔

سلطان عبدالحمید دوئم  کے بڑے ترین منصوبوں میں شامل "حجاز ریلوے لائن منصوبہ ایک ایسا منصوبہ تھا جسے  عثمانی حکومت نے   مکّہ اور مدینہ تک محفوظ سفر کے خیال سے عملی جامہ پہنایا ۔ اس کا ایک اور مقصد مکّہ اور مدینہ کے مقدس شہروں کو ایک دوسرے سے  منسلک کرنا تھا۔ اس ریلوے لائن نے نہ صرف سفر کی صعوبتوں کو کم کیا بلکہ علاقے کی تجارت اور ثقافت کو بھی تازگی بخشی۔ لیکن ریلوے لائن کے مکّہ تک پہنچنے سے پہلے ہی  جنگ عظیم اوّل شروع ہو گئی اور منصوبہ وہیں کا وہیں رُک گیا۔

 

اس کے علاوہ 1916 میں شریف حسین کی انگریزوں کے ساتھ مل کر کی گئی بغاوت نے اس ریلوے لائن کی تقدیر کو بالکل تبدیل کر دیا۔ انگریز فوجی افسروں کی اکساوے پر بدوی گروہوں کے مسلسل حملوں نے ریلوے لائن کا استعمال دشوار بنا دیا۔ جنگ عظیم کی بے رحمی نے سلطان عبدالحمید کے اس شاندار منصوبے کو بھی لپیٹ میں لے لیا اور صحرا کی ریت پر پھیلا یہ راستہ جگہ جگہ سے ٹوٹ گیا۔ لارنس کی ہدایات پر شریف حسین  کے آدمیوں نے ڈائنامیٹ کے ساتھ صرف ریل کی پٹڑیوں کے ہی نہیں ایک تہذیب کے صحرا میں پھیلے بازوں کے بھی پرخچےاُڑا دیئے۔ ہر دھماکے کے ساتھ ، پٹڑی کے ٹوٹنے والے ہر حصّے کے ساتھ  اور ہر پُل کی تباہی  کے ساتھ ہزاروں ماہرین، ہزاروں مہندسوں  اور ہزاروں مزدوروں  کا خون پسینہ بھی صحرا کی ریت میں دفن ہوتا چلا گیا۔

 

دمشق سے مدینہ تک پھیلی ریلوے لائن حقیقت کی طرح نقشے میں بھی جگہ جگہ سے منقطع ہے۔ ہر ٹوٹا ہوا ٹکڑا کسی زمانے میں ان زمینوں  پر  اپنی  کُلّی حیثیت  کی پُر حزن داستان سُنا رہا ہے۔ سن 1920 میں جب سیور معاہدے  کی سخت شرائط  پیش کی گئیں تو عثمانی سلطنت صرف اپنی سلطنت کو ہی نہیں صحرا پر نقش کئے گئے ایک شاندار شاہکار کو بھی چھوڑنے پر مجبور ہو گئی۔

 

بہت ممکن ہے کہ حجاز ریلوے لائن آج  قابلِ استعمال نہ رہی ہو، اس کی  پٹڑیاں زنگ آلود  ہو چکی ہوں لیکن اس شاندار منصوبے کی پُر حزن داستان صحرا کی ریت میں  آج بھی محفوظ ہے۔ ہر ٹوٹی ہوئی دیوار، ہر زنگ آلود پٹڑی ہمیں صرف ریلوے لائن کی ہی نہیں ایک تہذیب  کے، بے شمار انسانوں  کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے، خواب  کی کہانی بھی سُناتی ہے۔



متعللقہ خبریں