سیرو سیاحت۔1

سیر و سیاحت میں ہمارا پہلا پڑاو ہے ایران

2234799
سیرو سیاحت۔1

جب ہم، شہر کی پُرہجوم اور پُر شور زندگی اور بے حد محنت اور وقت صرف کر کے شروع کی گئی پیشہ وارانہ زندگی کے تھکا دینے والے معمول میں کچھ وقفہ ڈالنا چاہتے ہیں  تو جو سوچ سب سے پہلے ہمارے ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ "کیوں نہ کسی اور جگہ جایا جائے"۔

ہماری خواہش یہ ہوتی ہے کہ جس جگہ جانے کا خیال ہمیں آیا ہے وہ ہمیں ایک نیا پن عطا کرے، ہمارے ذہنی دباو کو کم کر کے ہمیں اتنا ہلکا پھُلکا کر دے کہ ہم معمول کی زندگی کو  چھوڑے ہوئے نقطے سے پوری طاقت کے ساتھ دوبارہ شروع کر سکیں۔ بالکل اسی وجہ سے اس پروگرام میں ہم جن ممالک کی سیر کریں گے ان کے طے شدہ سیاحتی رُوٹوں سے ہٹ کر  اپنے سفر کا راستہ اور شکل خود منتخب کریں گے۔

ہمارا پہلا پڑاو ہمسایہ ملک ایران ہے۔ ایران میں ہمارا سفر ، سینکڑوں سالہ ترک ثقافت کے نشانات کی، دریافت پر مبنی ہو گا۔ سلجوقیوں سے صفویوں تک اور الہانیوں سے قاچاروں تک پھیلی ہوئی یہ پُر ثروت میراث دورِ حاضر میں بھی اپنی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

 

تو آئیے ایران کے  شمال مغرب  یعنی تبریز سے اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ تبریز کی قدیم گلیوں میں چلتے ہوئے  ہر قدم پر ترک تاریخ کے آثار کو دیکھنا ممکن ہے۔ یہ شاندار شہر آج بھی ایرانی آذربائیجان  کے دل کی حیثیت رکھتا ہے۔ شہر کے مرکز میں واقع 'بند بازار' ایک وسیع و عریض کمپلیکس  ہے اور یونیسکو عالمی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ بازار،  ترک۔اسلام طرزِ تعمیر کی خوبصورت ترین مثالوں  میں سے ایک  ہے جس میں ترکی زبان میں  باتیں کرتے تاجروں کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔

 

تبریز کے بعد ہم نے اپنا روٹ 'ارومیہ' کی طرف موڑ دیا۔ ارومیہ پہنچنے پر جو چیز ہماری توجہ کا مرکز بنی وہ یہ تھی کہ یہاں ترک اور فارس ثقافت ایک دوسرے سے گھُلی ملی ہوئی ملتی ہے۔ ارومیہ جھیل کو مقامی ترک لوک کہانیوں میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جھیل، نمک کے کرسٹلوں سے ڈھکے ساحلوں کے ساتھ ایک سحر انگیز منظر  پیش کرتی ہے۔ شہر کے مرکز میں واقع ارومیہ بازار میں ترکی زبان بولنے والے تاجروں کے ساتھ صحبت میں ہمیں یہاں کی ثقافت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا موقع ملا۔

 

زنجان پہنچنے پر الہانیوں کے دور کا شاندار سلطانیہ مقبرہ ہمارا استقبال کرتا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے اینٹوں سے بنے گنبد والی یہ عمارت منگول۔ترک طرزِ تعمیر کا شہ پارہ ہے۔ رہتشو خانہ عجائب گھر میں، علاقے کے ترک عوام کی روز مرّہ زندگی اور روایات سے متعلق، ایک وسیع کولیکشن کو نمائش کیا گیا ہے۔

 

ہمارا اگلا پڑوا ایران کے شمال میں واقع شہر 'اردیبل ' ہے۔ صفوی خاندان کا معنوی مرکز ہونے کی وجہ سے اس شہر کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہاں واقع شیخ صافی مزار نہ صرف اپنی معماری خوبیوں کے ساتھ بلکہ فنّ خطاطی اور چینی کی نقاشی کی وجہ سے بھی ترک فن تعمیر کی باریکیاں  سمیٹے ہوئے ہے۔ اس مزار کا کتب خانہ کسی دور میں دنیا کا وسیع ترین قلمی نسخوں  کا ذخیرہ  تھا۔

 

جنوب کی طرف جائیں تو ہمارا سامنا اصفہان سے ہوتا ہے۔ اس شہر میں ہمیں ترک۔اسلام طرزِ تعمیر کی حامل شاندار ترین عمارتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ سلجوقی دور کی جمعہ جامع مسجد، ترک۔اسلام  طرزِ تعمیر کی مکمل ترین مثال ہے۔ صفوی دور میں تعمیر کی گئی اور  نقشِ جہان چوک  میں واقع شیخ لطف اللہ جامع مسجد اور علی قاپو محل  ترک۔فارس طرزِ تعمیر کی ہم آہنگی کے خوبصورت ترین نمونے ہیں۔ چہل سلطان محل کی تاریخی مناظر سے مزّین دیواریں اور محل کے موسیقی کے کمرے  کی صوتی خصوصیات  ترک فنِ تعمیر کی باریکیوں کی عکاس ہیں ۔

 

شیراز میں ہمیں فارس ثقافت کا ترک ثقافت کے ساتھ ایک خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔  یہاں  واقع کریم خان زند قلعہ  ترک عسکری طرزِ تعمیر کی ایک متاثر کن مثال ہے۔ شہر کے معروف بازاروں میں ترک قالینوں  اور دریوں کے روایتی ڈیزائن آج بھی زندہ ہیں۔

جب ہم مشرقی شہر 'مشہد ' پہنچتے ہیں تو امام رضا  کا مزار ہمیں اپنے معنوی  اثر میں لے لیتا ہے۔ یہ مقدس جگہ سینکڑوں سالوں سے اناطولیہ سے آنے والے حاجیوں کا ایک محبوب مقام بنی رہی ہے۔ یہ جگہ اپنے  تقّدس اور روحانیت کے ساتھ   زائرین پر  گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ شہر کی قالین بافی کی ورکشاپوں میں ہمیں ایران کے مشہور خراسانی قالینوں  میں ترک ڈیزائنوں کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

ہماری سیاحت کا آخر اسٹاپ دارالحکومت تہران ہے ۔ یہاں کے گلستان محل میں ہمارا سامنا قاچار خاندان  کے ترک الاصل ورثے سے ہوتا ہے۔ محل کی دیواروں کے چینی نقوش اور خطاطی ترک۔ایران فنّی روایتوں کا ایک بے قصور امتزاج ہے۔ محل کے عجائب گھر  میں رکھی گئی اشیاء  ایرانی تاریخ پر ترک حکمداروں کے چھوڑے ہوئے گہرے نقوش  کی آئینہ دار ہیں۔

 

اس سفر  میں ہم سے ملنے والا ہر شخص اور ہمارے راستے میں آنے والا ہر شہر اصل میں  ایران میں ترک وجود کی گہرائی  اور ثروت کا ثبوت تھا۔ ترکی زبان اور ثقافت، ایران بھر میں صرف تاریخی آثار میں ہی نہیں انسانوں کی روز مرّہ زندگی ، موسیقی ، دستکاریوں اور دستر خوان  میں، پوری آب و تاب سے زندہ ہے۔

آئیے اب سینکڑوں سالہ ترک۔فارس روایتوں کے امتزاج  سے ایک بے مثال شکل اختیار کرنے والی ایرانی  مطبخ ثقافت پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ لذّت کے اس سفر میں ہمیں دو دیرینہ دستر خوانوں  کے نقطہ اتصّال  پر ناقابل فراموش ذائقوں سے شناسی کا موقع ملتا ہے۔

 

سب سے پہلے ہم آپ کو تبریز کے معروف  "تبریز کوفتوں"  کے بارے میں بتاتے ہیں یہ کوفتے ابلے ہوئے انڈوں کے گرد قیمہ لپیٹ کر  اور خشک آلو بخارے اور اخروٹ کی گِری سے تیار ہونے والے کوفتے ہیں اور آذربائیجانی ترکوں کے دستر خوان کا ایک لذیذ ذائقہ ہیں۔ تبریز  بازار میں بکتی "پیسٹیل" اور "سوجوق" میٹھائیاں  اناطولیہ سے ہماری جانی پہچانی میٹھائیوں کی ایرانی شکل ہیں۔ ناشتے میں ملائی اور شہد  والی "سانگاک" روٹی ہمیں ترکیہ کے ضلع وان کے ناشتے کی یاد دلاتی ہے۔

 

ارومیہ کا دستر خوان جھیل کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے ایک خاص انفرادیت کا حامل ہے۔ یہاں کے "دِزی"  کباب،  ترکیہ کے ضلع قارس کے کبابو ں سے مشابہہ ہیں۔ مقامی بازاروں میں بکتے خشک میوہ جات  تقریباً تقریباً انہی ناموں سے پکارے جاتے ہیں جو ہم ترکیہ میں ان کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

اردبیل میں ہم "پیتی" نامی پکوان سے متعارف ہوتے ہیں۔ یہ پکوان چنے اور بھیڑ کے گوشت  سے بنایا جاتا ہے۔ اسے خاص طور پر مٹّی کی ہانڈی میں پکایا جاتا اور خاص طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔ شہر میں خشک سبزیوں کو چاولوں اور قیمے سے بھر کر پکائے جانے والے پکوان بالکل ترک دستر خوان کے "دولما" پکوان ہیں۔

 

اصفہان میں ہمیں صفوی دستر خوان کے ذائقے چکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں کے "چیلو کباب" صرف ایرانی دستر خوان ہی نہیں ترک دستر خوان کا بھی ناگزیر حصّہ ہیں۔ یہاں کے معروف کھانوں میں  بریانی اور بھرے ہوئے نان بھی بے حد لذیذ ہیں۔

مشہد کا دستر خوان خراسانی لذّتوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کے "شیش کباب"  اور "عاشورہ"  بالکل ترک دستر خوان سے مشابہ پکوان ہیں۔

ایران بھر میں پلاو کو خاص مقام حاصل ہے ۔ مثلاً کشمش سے تیار ہونے والا "زریش پلاو" اور سبزیوں سے تیار ہونے والا "سبزی پلاو"  بہت رغبت سے کھائے جاتے ہیں ۔  تاہم زعفران  پلاو کی دونوں شکلوں کا ضروری حصّہ ہے۔

 

چائے کی ثقافت ایران اور ترک دونوں معاشروں میں ایک ہی جیسے مقام کی حامل  ہے۔ پتلی کمر والے چائے کے کپ دونوں ثقافتوں میں صحبت، مہمان نوازی اور روز مرّہ زندگی کا حصّہ ہے۔

ترک اور ایرانی ثقافت سینکڑوں سالہ ماضی میں ایک دوسرے سے اس طرح گھُل مل چکی ہے کہ اب بہت سے پکوان ایسے ہیں  جنہیں ایک قطعی لکیر لگا کر کسی ملک سے خاص کرنا ناممکن ہو چُکا ہے۔ یہ وسیع میراث دورِ حاضر میں بھی پوری آب و تاب سے زندہ ہے اور دونوں ملکوں کے دستر خوان  کو انفرادیت بخشتی ہے۔

"سیر وسیاحت  "کے اگلے پڑاو تک خدا حافظ۔

 



متعللقہ خبریں