ترک لوک کہانیاں۔26

آج جو کہانی میں آپ کو سناوں گی اس کا نام ہے "لومڑی اور بھائی ناشپاتی"

2223681
ترک لوک کہانیاں۔26

آو بچو جلدی سے جمع ہو جاو کہانی گھر کھُلنے لگا ہے۔ آج جو کہانی میں آپ کو سناوں گی اس کا نام ہے "لومڑی اور بھائی ناشپاتی"۔

 

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل کے کنارے ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں ایک آدمی رہتا تھا۔ اس کی کُل کائنات یہ چھوٹی سی جھونپڑی اور اس کے چھوٹے سے باغیچے میں لگا ناشپاتی کا پیڑ تھا۔ اس پیڑ پر ہر روز دو ناشپاتیاں لگتیں جنہیں کھا کر آدمی گزر بسر کرتا تھا۔ انہی ناشپاتیوں کی وجہ سے اردگر کے لوگ اسے بھائی ناشپاتی کہتے تھے۔

 

ایک دن بھائی ناشپاتی کے مَن میں آئی اور  وہ  جنگل کی طرف نکل کھڑا ہوا۔ چلتے چلتے اس کا ایک چرواہے سے ٹکراو ہوا۔ چرواہا ہاتھ میں بانسری تھامے اپنی سفید سفید بھیڑوں کو چراتا پھر رہا تھا۔ پیاس لگتی تو جھن جھن بہتے چشموں سے پانی پی لیتا بھوک لگتی تو جنگلی پھل کھا لیتا ۔ جب ذرا اداسی ہونے لگتی تو جھٹ سے بانسری بجا کر خود بھی خوش ہوتا اور اپنی بھیڑوں کو بھی خوش کرتا۔ بھائی ناشپاتی یہ سب دیکھ کر بہت متاثر ہوا ۔ اتنے میں اسے بھوک ستانے لگی اور اسے ناشپاتی کے علاوہ اور کچھ کھانے کی عادت ہی نہیں تھی لہٰذا وہ گھر کی طرف دوڑ پڑا۔ گھر آ کر کیا دیکھتا ہے کہ ناشپاتی کے پیڑ تلے ایک لومڑی لیٹی ہوئی ہے اور پیڑ کے اوپر کوئی ناشپاتی نہیں ہے۔ بھائی ناشپاتی بہت پریشان ہوتا اور لومڑی سے پوچھتا ہے کہ بی لومڑی تم نے دیکھا کہ اس پیڑ سے کس نے پھل توڑا ہے۔ مجھے تو بہت بھوک لگی ہے اور اگر مجھے ناشپاتیاں نہ ملیں تو میرا کیا ہو گا۔

 

لومڑی کہتی ہے کہ وہ تو میں نے کھا لی ہیں۔ میں کیا جانوں یہ دو ناشپاتیاں تمہیں اتنی عزیز ہیں۔ مجھے پتا ہوتا تو میں کبھی بھی انہیں نہ کھاتی ۔ یہ کہہ کر جب وہ جانے کے لئے قدم بڑھاتی ہے تو اسے بھائی ناشپاتی کی سسکیاں سُنائی دیتی ہیں۔ لومڑی کو اس پر رحم آ جاتا ہے اور کہتی ہے کہ رونا بند کرو اور میرے ساتھ آو۔  بھائی ناشپاتی لومڑی کے ساتھ ہو لیتا ہے۔ راستے میں لومڑی کہتی ہے کہ جو میں کہوں بس وہی کرتے چلے جاناں خبردار میری بات کی نافرمانی مت کرنا۔  بھائی ناشپاتی مان لیتا ہے ۔ اتنے میں انہیں دُور سے ایک حویلی دِکھائی دینے لگتی ہے۔ حویلی کو دیکھتے ہی لومڑی اِدھر  اُدھر دیواروں اور درختوں سے ٹکرا کر خود کو زخمی کر لیتی ہے۔ حویلی کے دروازے پر پہنچ کر لومڑی رونا شروع ہو جاتی ہے۔ جب پہرے دار پوچھتے ہیں کہ کیوں رو رہی ہو تو لومڑی دردناک آواز میں کہتی ہے کہ راستے میں ڈاکووں نے ہمیں گھیر لیا۔ مجھے خوب مارا پیٹا اور میرے مالک کو لوٹ لیا ہے۔ جاو اپنے نواب کو کہو کہ ہماری مہمان نوازی کرے۔ حویلی کا نواب  انہیں مہمان بنا لیتا اور انہیں پہننے کے لئے  نئے کپڑے دیتا ہے۔ اتنی شاندار اور قیمتی پوشاک پہن کر بھائی ناشپاتی کی نظریں اپنے آپ سے ہٹنا ہی بھول جاتی ہیں۔ اس کی حیرانی کو دیکھ کر نواب پوچھتا ہے کہ کیا ہوا تو لومڑی فوراً کہتی ہے کہ کیا ہونا ہے میرے سردار نے تو اتنے سستے کپڑے کبھی اپنے نوکروں کو نہیں دیئے۔ حویلی کا مالک بہت حیران ہوتا اور پوچھتا ہے کہ کیا تمہارا مالک بہت امیر ہے۔ لومڑی یہ سُنتے ہی بھائی ناشپاتی کی دولت و ثروت کے اور جاہ و احتشام کے ایسے قصّے سناتی ہے کہ حویلی کا سردار اس کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ جیسے ہی لومڑی کو اس فیصلے کا پتا چلتا ہے تو فوراً کہتی ہے کہ میں پہلے سے جا کر سارے انتظام دیکھ لوں آپ بعد میں بھائی ناشپاتی کے ساتھ آ جانا۔ لومڑی واپس جاتے ہوئے جنگل میں جسے بھی دیکھتی ہے اسے کہتی ہے کہ کچھ دیر میں یہاں سے ایک نواب کا قافلہ گزرے گا جب وہ پوچھے تو کہنا کہ یہ سب زمینیں تو بھائی ناشپاتی کی ہیں۔  یہ بھیڑ بکریاں  اور یہ بڑے بڑے ریوڑ سب اُسی کے ہیں۔ یہ کہتے کہتے وہ جھونپڑی میں پہنچتی اور دیکھتے ہی دیکھتے جھونپڑی کو نوکروں چاکروں سے بھرے سجے سنورے محل میں تبدیل کر دیتی ہے۔

اتنے میں نواب بھی  اپنی بیٹی اور بھائی ناشپاتی کے ساتھ محل میں پہنچ جاتا ہے۔ محل کی شان و شوکت دیکھ کر نواب اور بھی متاثر ہوتا ہے اور بڑی دھوم دھام سے اپنی بیٹی کی شادی کر دیتا ہے۔

 

 

لومڑی محل کی  ایک بُرجی  کے سب سے بالائی کمرے میں رہنے لگتی ہے۔ ایک دن وہ کنیزوں سے کہتی ہے کہ جب میں مر جاوں تو مجھے اسی کمرے میں دفن کر دینا۔ اگلے دن ہی لومڑی مر جاتی ہے۔ کنیزیں بھائی ناشپاتی کو اس کی وصیت بتاتی ہیں تو بھائی ناشپاتی ہنس کر کہتا ہے کہ یہ محل کے سامنے جو گڑھا اس میں ڈال دو  ۔مرنے کے بعد اسے کیا پتہ چلے گا کہ محل میں ہے یا گڑھے میں۔ یہ سُنتے ہی لومڑی ایک دم سے آنکھیں کھول کے کہتی ہے کہ "اچھا تو تم میری نیکی کا  یہ بدلہ دو گے"۔ بھائی ناشپاتی کھسیانا ہو کر کہتا ہے کہ میں نے تو مذاق کیا ہے۔ مجھے پتا تھا تم زندہ ہو۔

 

وقت گزرتا جاتا ہے ۔ ایک دن لومڑی واقعی مر جاتی ہے اور بھائی ناشپاتی اسے گڑھے میں پھینکوا دیتا ہے۔ لومڑی کو پھینکوانے کی دیر ہوتی ہے کہ بھائی ناشپاتی کا نہ محل رہتا ہے ، نہ نوکر چاکر اور نہ ہی بیوی ۔ سب کچھ ایسے غائب ہو جاتا ہے جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ جی تو بچو اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی میں صداقت، وفا اور اعتماد کس قدر قیمتی اقدار ہیں۔ بے وفا لوگ مختصر مدّت کے فوائد تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن کبھی بھی دائمی خوشی حاصل نہیں کر سکتے۔



متعللقہ خبریں