پاکستان ڈائری 50
دسمبر پاکستان کے لئے تلخ یادیں چھوڑ گیا دو سانحے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
دسمبر پاکستان کے لئے تلخ یادیں چھوڑ گیا دو سانحے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
ہم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ ملک ٹوٹ گیا۔ ہمارے بزرگ سقوط ڈھاکہ کا تذکرہ کرتے ہوئے روتے تھے۔شاید ہی کبھی دنیا میں ہوا ہو کہ ملک کے دو حصے اتنے فاصلوں پر ہو۔ پھر یہ ہی فاصلے دلوں میں بھی آگئے اور لیڈرز کے غلط فیصلے پاکستان کی فیڈریشن کو توڑ گیے۔ پر شاید اشرافیہ احساس سے عاری ہوتے ہیں۔ انکو صرف اقتدار دولت اور خود سے پیار ہوتا ہے۔ پر عام عوام ایسے نہیں ہوتے وہ ایسے سانحوں کے بعد ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس سانحے کو ہندوستان پر ڈال کر سب آگے نکل گئے انکی معاونت کس نے کی انکے سہولت کار کون تھے یہاں پر زمہ دارن کون تھے کسی کو پرواہ ہی نہیں کہ جرم کرنے والے کو سزا تو ملتی ۔ آپس کی لڑائی کا فائدہ ہندوستان نے اٹھایا اور یہ ناچاکی ملک کو توڑ گئ۔ زمہ داروں کو کبھی سزا نہیں ہوئی فائلیں کمیشن گرد تلے دب گئے۔ ہم دیگر مسائل میں پھنس گئے۔ جب ہم بڑے ہوئے تو ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہا تھا۔ یہ جنگ امریکا کی تھی ہم پر مسلط کی گئ یہاں تک کہ اس کی آگ کی لپیٹ میں پاکستان آگیا۔
ہم سمجھتے تھے کہ شاید بطور قوم ہم اتنی قربانیاں دے چکے ہیں کہ اب مزید امتحانات ہم پر نہیں آئیں گے۔ پر قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد سانحہ اے پی ایس نے ہمارے قلب پر وار کئے۔ سب ہل کر رہ گئے سکول میں کون یہ سب کرسکتا ہے بچوں پر ظلم کون کرسکتا ہے۔ پر ایسا ہوا اور ہمارے 122 بچوں کو سکول کالج میں شہید کیا گیا۔ کل تعداد 144 تھی جس میں بچے استاتذہ اور ایڈمن اسٹاف شامل تھے۔ اسکے ساتھ تین فوجی اہلکاروں نے بھی اپنی جان اس سانحے میں وطن پر قربان کردی۔ کہنے کو تو یہ ہندسے ہیں لیکن اصل میں یہ ایک سو چوالیس خاندان تھے جواس دن دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بچے پڑھنے گئے تھے لیکن زندہ واپس نہیں آسکے۔
میں نے اس سانحے پر کتاب لکھی اس لیے بہت سے لوگوں کو میں ذاتی طور پرجانتی ہو جو اس سانحے سے مکمل تباہ ہوگیے ۔ اس سانحے کو اب دس سال ہوگئے ہیں تاہم اس سے متاثر ہونے والے خاندان اب بھی غم اور تکلیف محسوس کرتے ہیں۔
دہشتگردی اپنے ساتھ بہت تباہی لاتی ہے۔ ایک تباہی تو اس دن ہوتی ہے جو اس سانحے کے روز ہوتی ہے پر اسکے دور رس اثرات ہوتے ہیں۔ ان فیملیز نے بہت سہا ہے اور اب بھی روتے ہیں۔ اس ماں کی تکلیف لکھنا آسان نہیں جس نے اپنا بچہ دہشتگردی کی ہولناکی میں کھو دیا ہو۔ جو بچے زندہ بچ گئے تھے وہ بھی بہت عرصہ پی ٹی ایس ڈی کا سامنا کرتے رہے۔ دکھ انسان کو کھوکھلا کردیتے ہیں انسان کو کھا جاتے ہیں۔
سولہ دسمبر کے شہدا میں ایک بچہ حسن زیب بھی تھا.اس کی والدہ صبح سے شام تک یا تو حسن زیب کے کپڑے کتابیں دیکھتی رہتی ہیں یا روتی رہتی ہیں۔ وہ اس صدمے کی وجہ سے علیل رہنے لگ گئ ہیں۔یہ صدمہ اتنا شدید تھا کہ کچھ عرصے بعد اس کے والد اورنگذیب ہارٹ اٹیک سے وفات پاگئے۔ حسن زیب ۱۹۹۸ میں پیدا ہوا اور چار بھائیوں میں اسکا نمبر تیسرا تھا۔ جب اسکی شہادت ہوئی تو وہ میٹرک کلاس کا اسٹوڈنٹ تھا گھر میں ہر طرف اسکی یادیں موجود ہیں۔ حسن کے پالے ہوئے مٹھو بھی گھر میں موجود ہیں۔ تاہم گھر میں وہ اور اسکے والد نہیں ہیں۔
اسکی والدہ کہتی ہیں کہ میرے بیٹے کو قبر کے اندھیرے اور قبرستان کی خاموشی سے بہت ڈر لگتا تھا اب وہ وہاں ہی چلا گیا. میرا بنا کتنا ڈرتا ہوگا میرا بچہ یہ سوچ کر میں اکثر ساری رات سو نہیں پاتی.میں اس کی چیزیں چومتی ہوں اس کی تصاویر سے باتیں کرتی ہوں.مجھے اب کسی پر اعتبار نہیں رہا مجھے ہروقت ڈر لگتا ہے کہ کسی اور سکول ہر حملہ نا ہوجائے کسی اور ماں کا بچہ شہید نا ہوجائے..لیکن انصاف ہوگا خدا کی لاٹھی بے آواز ہے، اس ساںحے کو دس سال ہوگئے شہدا کے خاندان انصاف کے منتظر ہیں۔۔۔