ترک لوک کہانیاں۔22
آج جو کہانی میں آپ کو سنانے جا رہی ہوں اس کا نام ہے "دو بادشاہ"
آو بچو جلدی سے جمع ہو جاو کہانی گھر کھلنے لگا ہے۔ آج جو کہانی میں آپ کو سنانے جا رہی ہوں اس کا نام ہے "دو بادشاہ"۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ملک کے دو بادشاہ تھے ۔ ان میں سے ایک بے اولاد تھا اور دوسرے کی تین بیٹیاں تھیں۔ دونوں بادشاہ پورے ملک پر حکمرانی کے لئے ایک دوسرے سے جنگیں کرتے رہتے تھے۔ ایک جنگ میں بے اولاد بادشاہ دوسرے بادشاہ کو سخت شکست دینے کے بعد اس کے مال و دولت پر ہی قبضہ نہیں کرتا بلکہ اس کی بیٹیوں کو بھی قیدی بنا لیتا ہے۔
ایک دن شہزادیاں قید خانے میں باتیں کر رہی ہوتی ہیں کہ پہرے دار ساری باتیں سُن لیتا ہے۔بڑی شہزادی کہتی ہے کہ اگر بادشاہ نے میرے ساتھ شادی کی تو میں ایک لنگر خانہ کھلواوں گی اور بادشاہ کی ساری فوج کو وہاں سے مفت کھانا دیا کروں گی۔ دوسری شہزادی کہتی ہے کہ اگر بادشاہ میرے ساتھ شادی کرتا ہے تو میں ایک درزی خانہ کھلواوں گی اور ساری فوج کو وردیاں سلوا کر دوں گی۔ سب سے چھوٹی شہزادی کہتی ہے کہ اگر بادشاہ نے مجھ سے شادی کی تو میں ایک ایسے لڑکے اور لڑکی کو جنم دوں گی جن کے سینوں پر چاند اور ماتھوں پر ستارہ ہو گا۔
پہرے دار یہ باتیں بادشاہ تک پہنچا دیتا ہے۔ بادشاہ تینوں شہزادیوں کو اپنے پاس بلواتا اور چھوٹی شہزادی سے شادی کر کے بڑی شہزادیوں کو اس کی ملازمائیں بنا دیتا ہے۔ بڑی شہزادیاں قید سے رہائی پر شکر تو کرتی ہیں لیکن دل ہی دل میں چھوٹی بہن سے نفرت اور حسد کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ دن گزرتے جاتے ہیں اور آخر وہ دن آ پہنچتا ہے کہ جب چھوٹی شہزادی ایک لڑکے اور ایک لڑکی کو جنم دیتی ہے۔ بڑی شہزادیاں جب دیکھتی ہیں کہ بچوں کے سینوں پر واقعی چاند اور ماتھوں پر ستارے کا نشان ہے تو ان کے دلوں میں دبی ہوئی نفرت ایک دم سے جوش پکڑ جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اب تو بادشاہ اس سے اور بھی زیادہ محبت کرنے لگے گا کیوں نہ ان بچوں کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔ بڑی سوچ بچار کے بعد وہ دونوں بچوں کو صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دیتی اور چھوٹی شہزادی کے پاس کّتے کے دو پِلّے رکھ دیتی ہیں۔ جب بادشاہ اپنے بچے دیکھنے آتا ہے تو شہزادیاں کہتی ہیں کہ ہماری بہن نے تو پلّوں کو جنم دیا ہے۔
یہ سُنتے ہی بادشاہ غصّے سے آگ بگولہ ہو جاتا اور ملکہ کو جیل میں ڈال کر ایک سخت گیر پہرے دار کو اس کی نگرانی پر بٹھا دیتا ہے۔
دوسری طرف بچوں کا صندوق ایک بے اولاد ماہی گیر کے ہاتھ لگ جاتا ہے۔ جب وہ صندوق میں بند بچے اپنی بیوی کو دِکھاتا ہے تو دونوں کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں رہتا۔ دونوں میاں بیوی بچوں کو لوگوں کی نظروں سے چھپانے کے لئے ان کے سروں پر ٹوپی پہنائے رکھتے ہیں۔ جب بچے جوان ہو جاتے ہیں تو ایک دن ان کا سامنا ایک بزرگ سے ہوتا ہے۔ بزرگ انہیں کہتا ہے کہ فلاں جگہ جاو وہاں ایک محل ہے تمہارا اصل گھر وہ محل ہے۔ اگر کبھی کوئی مشکل پڑے تو شمال کی طرف واقع سُرخ پہاڑی پر آ کر مجھ سے ملنا۔ دونوں بہن بھائی اپنے ماہی گیر ماں باپ کا شکریہ ادا کرتے اور ان سے اجازت لے کر بزرگ کے بتائے ہوئے محل میں پہنچ جاتے ہیں۔ محل اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ اس کے چرچے بادشاہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ بادشاہ لڑکے اور لڑکی کو بلاتا اور انہیں کہتا ہے کہ میرے ملک میں رہنا ہے تو سارے شہر میں ندیوں کا جا ل بچھا دو لیکن احتیاط کرنا کسی گھر میں پانی نہ رسنے پائے ورنہ میں تم دونوں کو ملک بدر کر دوں گا۔ دونوں بہن بھائی بہت پریشان ہوتے اور بزرگ کے پاس پہنچ کر مدد مانگتے ہیں۔ بزرگ کہتا ہے کہ تم گھر جاو کل صبح تک شہر میں ندیوں کا جال بچھ جائے گا۔
اگلے دن واقعی سارے شہر میں ٹھنڈے پانی کی ندیاں بہہ رہی ہوتی ہیں۔ جب بادشاہ کو خبر ملتی ہے تو وہ بہت پیچ و تاب کھاتا ہے۔ اس نے تو یہ شرط بہن بھائی کو ملک بدر کرنے کے لئے رکھی ہوتی ہے لیکن جب ناکامی ہوتی ہے تو دوبارہ بہن بھائی کو بُلاتا اور کہتا ہے میرے پاس حُور لے کر آو تو تب ہی تم یہاں رہ سکتے ہو ورنہ میں تمہیں اپنے ملک سے نکال دوں گا اور تمہارے محل پر بھی قبضہ کر لوں گا۔
دونوں بہن بھائی دوبارہ بزرگ کے پاس جاتے اور سارا ماجرا بتاتے ہیں۔ بزرگ کہتا ہے کہ تین دفعہ "اے حور " پکارو۔ بہن بھائی ایسا ہی کرتے ہیں اور حور ان کے سامنے حاضر ہو جاتی ہے۔ وہ حور کو لے کر بادشاہ کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔
بادشاہ حور کو دیکھ کر حیران رہ جاتا اور اسے اپنے دستر خوان پر کھانے کی دعوت دیتا ہے ۔ حور کہتی ہے کہ جب تک مرغے کا انڈہ نہ ہو میں تو کھانا نہیں کھاوں گی۔ بادشاہ قہقہہ مار کے ہنسنا شروع کر دیتا اور کہتا ہے کہ یہ کیسی شرط ہے کبھی مرغے بھی انڈے دیتے ہیں۔ حور کہتی ہے کہ اگر مرغے انڈے نہیں دے سکتے تو عورت کُتے کے پلّے کیسے جَن سکتی ہے۔ یہ کہنے کے بعد حور دونوں بہن بھائیوں کی ٹوپیاں اتارتی اور ان کے ماتھوں کے ستارے اور سینوں کے چاند بادشاہ کو دِکھا کر کہتی ہے کہ تمہاری اولاد پلّے نہیں یہ لڑکا اور لڑکی ہیں۔ بادشاہ یہ دیکھ کر ندامت سے سر جھکا لیتا ہے۔ ملکہ کو آزاد کر دیتا اور تخت و تاج اپنے بیٹے کے حوالے کر کے کہتا ہے کہ اس تخت و تاج کو فراست اور عزم و ہمّت والے بادشاہ کی ضرورت ہے میرے جیسے کم عقل کی نہیں۔