اہم ایجادات 46

تھیوفیلس ون کینل کا گردان دروازہ

2209033
اہم ایجادات 46

کیا دروازے سے پہلے کون نکلے گا یا کیا مرد ہمیشہ عورتوں کے لیے دروازہ کھولنے پر مجبور ہیں؟ ہمارے زندگی میں کبھی کبھی ایسی سماجی ضرورتیں آتی ہیں جن کا جواب ہمیں تلاش کرنا ہوتا ہے۔ کیا یہ اجتماعی ضرورتیں کسی ایجاد کی صدفی وجہ ہو سکتی ہیں؟ ہم جن متعدد منزلہ عمارتوں کی بات کر رہے ہیں، ان میں داخلی دروازے اب گردان دروازے ہیں، تو اس سوال کا جواب "ہاں" ہے۔ کیونکہ جرمن مخترع تھیوفلس ون کینل نے 1888 میں پہلے گردان دروازے کا پیٹنٹ حاصل کیا تھا، جس کا مقصد "سماجی ذہنی خوف" کے اس طرح کے مسائل سے نجات پانا تھا اور نیا ایجاد کے طور پر گردان دروازے ہی سب سے بہتر حل تھا۔

 

درحقیقت، اس شعبے میں پہلا پیٹنٹ 1881 میں جرمنی میں دیا گیا تھا، لیکن "بغیر ہوا کے دروازے" کے نام سے جانے جانے والے اس کام کو فروغ دینا اور اسے دنیا میں متعارف کرانا تھیوفلس ون کینل کا نصیب ہوا۔ دعوے کے مطابق، 1841 میں امریکہ میں پیدا ہونے والے تھیوفلس ون کینل، سماجی شعبے میں مردوں کے لیے "شہامت یا فروتنی" کے طور پر جانے جانے والی ادب کے اس قاعدے پر زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے۔ جب وہ کسی گھر یا عمارت کے دروازے پر مردوں سے ملتے تھے تو "آپ پہلے جائیں" کہہ کر زور دینے سے یا خواتین  کےلیے دروازہ کھولنے سے کبھی بھی خوش نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے اس مسئلے سے نجات پانے کے لیے جو اس میں سماجی ذہنی خوف پیدا کرتا تھا، اس پر پوری طاقت سے کام کرنا شروع کر دیا۔

 

..**

 

امریکی مخترع 1888 میں اپنے مقصد تک پہنچ گیا اور جس دروازے کا نام اس نے "طوفانی دروازہ" رکھا تھا، اس گردان دروازے کا پیٹنٹ حاصل کر لیا۔ یہ پہلا خشبی گردان دروازہ نیویارک کے مشہور ٹائمز اسکوائر میں واقع ایک ریستوراں کے داخلے  پر لگایا گیا تھا اور گاہکوں کی پسند بھی بن گیا۔ ون کینل کے گردان دروازے میں تین برابر فاصلے پر پنے ہوئے پر ہوتے تھے۔ دروازے میں ہوا کی پٹیاں لگی تھیں جس سے آواز کے بغیر گھومنے کی سہولت تھی۔ گردان دروازہ ہوا، برف، بارش یا دھول کے داخلے کو روکتا تھا، اس لیے فولادی دروازوں سے کہیں زیادہ فائدے مند تھا اس کے علاوہ چونکہ گردان دروازہ ایک طرف ہی گھومتا تھا، لہذا ایک ہی وقت میں داخلے اور باہر نکلنے کی سہولت تھی اور کسی کو راستہ  نہیں دینا پڑتا تھا۔ اس طرح ون کینل نے اپنی نئی ایجاد کے ذریعے اپنی سماجی ذہنی خوف پر بھی قابو پا لیا۔

 

گردان دروازے کے مخترع تھیوفلس ون کینل کو 1889 میں فرینکلن انسٹی ٹیوٹ نے ایک تمغے سے نوازا گیا، کیونکہ انہوں نے اپنی ایجاد کے ذریعے معاشرے کو ایک کمال کا تحفہ پیش کیا تھا۔ 2007 میں انہیں امریکہ کے قومی مخترعین کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ آج کل گردان دروازے ایک مرکزی چھڑ نظام میں لگے ہوتے ہیں اور اس طرح لامحدود گھومتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر گردان دروازے ہلکے دھاتی فریم اور کانچ سے بنائے جاتے ہیں، جس سے لوگوں کو آپس میں دیکھنے کی سہولت بھی ہوتی ہے۔ موڑ والی دیواری حصے سے گردان دروازہ ہمیشہ بند رہتا ہے اور باہر سے آنے والی ہوا اور دھول کو روکتا ہے۔ اس طرح عمارت کو گرم یا ٹھنڈا رکھنے کے لیے صرف  ہونے والی توانائی بھی کم سے کم ہو جاتی ہے۔ موجودہ حسابات کے مطابق، گردان دروازے متعدد منزلہ عمارتوں کی حرارت کے نقصان کو 30 فیصد تک کم کر دیتے ہیں۔

 

ون کینل کی ایجاد، گردان دروازہ، سو سال سے زیادہ عرصے سے بہت سے لوگوں کے لیے زندگی آسان بنا رہا ہے، لیکن بند جگہوں میں رہنے سے خوف رکھنے والوں کے لیے اسے مزید مشکل بنا دیتا ہے۔ گردان دروازے کے آلات میں خرابی ہونے یا بجلی کے دروازوں کے کام نہ کرنے سے کلوسٹروفوبیا  لوگوں کے لیے یہ تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں، کسی غیر متعارف شخص کے ساتھ چھوٹے کمرے میں پھنس جانا، امریکی مخترع کے لیے بالکل بھی آسان نہیں تھا جب وہ گردان دروازے کی ایجاد کر رہے تھے۔ لیکن ان استثنائی منفی آثار کے باوجود، گردان دروازے آج کل متعدد منزلہ عمارتوں کی معماری اور نتیجتاً ہمارے زندگی کا ایک  ناگزیر حصہ بن گئے ہیں اور جب تک اس سے بہتر کچھ ایجاد نہ ہو، وہ ایسے ہی رہیں گے۔

 

 



متعللقہ خبریں