ترک لوک کہانیاں۔19
آج کی ہماری کہانی ہے "ننھی لڑکی اور اس کی گائے"
کسی زمانے کی بات ہےکہ ایک ننھی لڑکی اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک گاوں میں رہتی تھی۔ ایک دن اس کی ماں کا انتقال ہوگیا، اور اس کی جگہ سوتیلی ماں آگئی۔ وہ ہر روز لڑکی کو گائے چرانے بھیجتی اورکھانے کے لئے جَو کی روٹی کا ایک ٹکڑا اسے تھما دیتی۔ بچی روتی ہوئی جاتی، نہ وہ روٹی چبا سکتی تھی اور نہ ہی نگل سکتی تھی۔
ایک دن جب وہ گائے کو چرا رہی تھی تو گائے کہنے لگی کہ: وہ روٹی مجھے دے دو، میں کھا لوں گی۔ تم میرے کان میں آجاؤ، وہاں لذیذ کھانے ہیں، تم وہ کھاؤ۔"
اس دن کے بعد، لڑکی جو کی روٹی گائے کو دے دیتی اور خود گائے کے کان میں جا کر لذیذ کھانے کھاتی۔ سوتیلی ماں کی بھی ایک بیٹی تھی۔ سوتیلی ماں نے دیکھا کہ سوتیلی بیٹی دن بہ دن موٹی اور خوبصورت ہوتی جا رہی ہے، جبکہ اس کی اپنی بیٹی کو انڈے اور مکھن کھلانے کے باوجود بھی ویسی نہیں ہو رہی۔ اس لیے ایک دن وہ اپنی بیٹی کو بھی سوتیلی بیٹی کے ساتھ گائے چرانے بھیجتی ہے۔ اسے بھی جو کی روٹی کا ایک ٹکڑا دیتی ہے۔ لڑکی جاتی ہے، بھوک لگتی ہے۔ جو کی روٹی کھاتی ہے، روٹی گلے میں اٹک جاتی ہے، آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ گائے، جو جانتی تھی کہ سوتیلی ماں سوتیلی بیٹی کے ساتھ کیا کرتی ہے، خاموش رہتی ہے۔ لڑکی گھر آتی ہے اور کہتی ہے:
"امی امی، مجھے دوبارہ مت بھیجنا، میں وہ روٹی نہیں کھا سکتی۔ اسی لڑکی کو بھیج دو، میں تو مرتے مرتے بچی ہوں۔"
اگلے دن سوتیلی ماں سوتیلی بیٹی کو تھوڑی سی روئی اور تکلی دیتی ہے اور کہتی ہے: "آج اسے کات کر دھاگے کی طرح بنا دو۔"
لڑکی روئی اور تکلی لے کر آتی ہے، انہیں دیکھ کر رونے لگتی ہے، گائے پوچھتی ہے: "یہ کیا ہے، کیوں رو رہی ہو؟" "سوتیلی ماں نے کہا ہے کہ اسے دھاگے کی طرح کات دو۔" "وہ روئی مجھے دے دو، میں کھا لیتی ہوں، تم میرے پاس بیٹھ کر لپیٹتی رہو
لڑکی روئی گائے کو دیتی ہے، گائے روئی کو نگل جاتی ہے۔ روئی اس کے کان سے باریک دھاگے کی طرح نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔ لڑکی اسے لپیٹتی اور دھاگہ گھر لے جاتی ہے۔ اب یہ لڑکی ہر کسی کی زبان پر آ جاتی ہے کہ وہ اتنا خوبصورت دھاگہ کاتتی ہے۔ عورت اپنی بیٹی سے کہتی ہے:
"دیکھو بیٹی، وہ کیسے سب کی نظروں میں آ گئی ہے، آج تم بھی روئی لے کر جاؤ اور کاتو۔"
لڑکی روئی لے کر جاتی ہے، موٹا موٹا کاتتی ہے۔ گھر آتی اور اپنی ماں سے کہتی ہے کہ "امی مجھ سے نہیں کاتا جاتا"۔
ماں کہتی ہے کہ "تم نہیں کر سکیں لیکن دیکھو وہ لڑکی گائے بھی چراتی ہے، موٹی بھی ہو رہی ہے اور روئی بھی کات رہی ہے"۔
سوتیلی ماں کو شک ہوتا ہے کہ ہو نہ ہو اس گائے میں ہی کوئی کرامت ہے۔ وہ اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ "کیوں ناں اس گائے کو ذبح کر دیں"۔
آخر وہ گائے کو ذبح کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ یہ فیصلہ سُن کر یتیم لڑکی جا کر گائے کے پاس بیٹھتی اور رونا شروع کر دیتی ہے۔ گائے پوچھتی ہے کہ "کیوں رو رہی ہو؟"
لڑکی کہتی ہے کہ "وہ تمہیں ذبح کر دیں گے تو میں کیا کروں گی؟"
گائے کہتی ہے کہ "جب وہ مجھے ذبح کریں تو میں اپنا گوشت ان کے لیے کڑوا کر دوں گی جس کے بعد وہ نہیں کھا سکیں گے ۔ لیکن میرا گوشت تمہیں شکر کی طرح میٹھا لگے گا اور تم اسے کھا لینا۔ میری ہڈیاں سفید کپڑے میں لپیٹ کر میرے گھاس کے تھان کے نیچے رکھ دینا۔"
جب گھر لے لوگ گائے کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھانے لگتے ہیں تو گوشت انہیں اتنا کڑوا لگتا ہے کہ کوئی بھی اسے نہیں کھا سکتا۔ لیکن لڑکی کو گوشت شکر کی طرح لگتا ہے، وہ پیٹ بھر کے کھانا کھاتی ہے۔ سیر ہونے کے بعد ہڈیاں جمع کر کے سفید کپڑے میں لپیٹتی ہے اور گائے کے تھان تلے دفن کر دیتی ہے۔ ایک دو مہینے گزر جاتے ہیں۔ ایک دن بادشاہ کے بڑے بیٹے کی شادی ہوتی ہے اور پوری عوام کو شادی میں شرکت کی دعوت دیتا ہے۔ سوتیلی ماں اپنی بیٹی کو سجاتی سنوارتی ہے اور شادی پر جانے سے پہلے سوتیلی بیٹی سے کہتی ہے کہ "اس دیگ کو ہمارے آنے تک آنسوؤں سے بھر دینا۔"
ایک ٹین گندم اور ایک ٹین مسور کی دال کو ملا دیتی ہے، لڑکی سے کہتی ہے کہ"ان کو ایک ایک کر کے الگ کرنا۔ ہم دو دن میں واپس آئیں گے، تم یہ سب چننا اور دیگ کو اپنے آنسوؤں سے بھرنا۔"
وہ چلے جاتے ہیں، یہ لڑکی بیٹھ کر روتی ہے۔ کتنا روئے کہ دیگ بھر جائے۔ اس طرف سے ایک نمک فروش گزرتا ہے، رونے کی آواز سن کر پوچھتا ہے کہ"کیوں رو رہی ہو بیٹی"۔
لڑکی کہتی ہے کہ سوتیلی ماں نے کہا کہ "تم اسے اپنے آنسوؤں سے بھرو گی۔"
"لو بیٹی، ایک پیمانہ نمک اور دو ٹین پانی ڈال دو، یہ رہے تمہارے آنسو۔ آنسو بھی تو نمکین ہوتے ہیں۔"
اب وہ بیٹھ کر مسور کی دال اور گندم کو الگ کر رہی ہوتی ہے کہ دروازے سے چھلنی بیچنے والے گزرتے ہیں۔ وہ اس سے روٹی مانگتے ہیں، وہ دے دیتی ہے اور کہتی ہے: "سوتیلی ماں نے کہا تھا کہ انہیں الگ کرو، میں نے الگ کیا لیکن ختم ہی نہیں ہوتا۔" "لاؤ ہم چھان دیتے ہیں۔" چھاننے پر گندم نیچے چلی جاتی ہے اور دال اوپر رہ جاتی ہے۔
لڑکی کو گائے کی ہڈیوں کا خیال آتا ہے۔ وہ تھان میں جا کر دیکھتی ہےتو وہاں ہڈیوں کی جگہ پر سونے کے کام والے کپڑے، گھوڑے، ہر چیز موجود ہے۔ لڑکی فوراً کپڑے پہن کر گھوڑے پر سوار ہو جاتی ہے اور شادی میں چلی جاتی ہے۔ وہاں دیکھتی ہے کہ اس کی سوتیلی ماں اور بہن بیٹھی ہیں۔ جب وہ آتی ہے تو سب اسے بادشاہ کی بیٹی سمجھتے ہیں، اس کا استقبال کرتے ہیں اور بٹھاتے ہیں۔ تھوڑی دیر بیٹھتی ہے، دیکھتی ہے کہ سوتیلی ماں اور بہن کی واپسی کا وقت ہو گیا ہے تو فوراً ان سے پہلے اٹھ جاتی ہے۔ راستے میں جلدی میں اس کا جوتا چشمے میں گر جاتا ہے۔ وہ گھر آ جاتی ہے، کپڑے اتار کر چھپا دیتی ہے۔ سوتیلی ماں گھر آتی ہے، لڑکی پوچھتی ہے: "شادی کیسی رہی، آپ کو لطف آیا؟" "ہاں بہت لطف آیا، کاش تم دیکھتی، ایک بادشاہ کی بیٹی بھی آئی تھی، سب نے اس کا استقبال کیا، اتنی عزت کی، شادی بہت خوبصورت تھی، وہ لڑکی بھی بہت خوبصورت تھی۔" سوتیلی ماں کو نہیں معلوم کہ وہ یہی لڑکی تھی۔
اس دوران بادشاہ کا بیٹا شادی میں اس لڑکی سے بہت متاثر ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے گھوڑے کو چشمے پر لے جاتا ہے تو وہاں اسے لڑکی کا جوتا ملتا ہے۔ وہ کہتا ہے: "جس کے پاؤں میں یہ جوتا فٹ ہو گا، میں اس سے شادی کروں گا۔" وہ ہر جگہ لے جاتے ہیں، کسی کے پاؤں کے لیے چھوٹا ہوتا ہے، کسی کے لیے بڑا۔ اس لڑکی کے پاؤں میں بالکل فٹ آتا ہے۔ سوتیلی ماں غصے سے پھٹنے کو ہوتی ہے۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا شہزادہ لڑکی کو لے جاتا اور دھوم دھام سے اس کے ساتھ شادی کر لیتا ہے۔