ترکیہ اور توانائی 45
اسرائیل کے ایرانی پیٹرول تنصیبات پر ممکنہ حملوں کے خطے پر اثرات
غزہ پر اسرائیل کے حملوں کو شروع ہوئے 13 ماہ گزر چکے ہیں۔ شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ ہزاروں شہریوں کی لاشیں تاحال ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔۔۔
ایک لاکھ سے زائد لوگ زخمی ہیں۔ غزہ کی پٹی پر مقیم 12 لاکھ شہریوں کو تواتر سے ایک جگہ سے دوسری نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
اسرائیل 8 اکتوبر 2023 سے لبنان کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ ان حملوں میں لبنانی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نصر اللہ مارے گئے۔ لبنان میں 13 ماہ سے اسرائیلی حملوں میں تقریباً 3 ہزار افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ آیا کہ شہریوں کو نشانہ بنانے والے بمباری کب تک چلے گی ؟
حقیقت یہ ہے کہ تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک اور خلیجی خطہ سمیت اوپیک کی طرف سے اسرائیل کے خلاف کوئی پابندی عائد نہ کرنا مسلم اُمہ میں سب سے زیادہ زیر بحث موضوع بحث ہے۔
ماہرین کے مطابق موجودہ حالات 1973 کے واقعات سے بالکل مختلف ہیں ۔
1973 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد، سعودی عرب کی قیادت میں ممالک نے پیٹرول کی برآمدات پر پابندی کا آغاز کیا تھا۔
امریکہ سے شروع ہونے والی پابندی کو بعد میں وسعت دیتے ہوئے مغربی یورپ اور جاپان کو بھی شامل کیا گیا۔ تیل کی فی بیرل قیمت مہینوں میں چار گنا بڑھ کر 12 ڈالر تک جا پہنچی ۔ یورپ میں افراطِ زر کی شدید لہر نے جنم لیا۔
موٹر ساز صنعت کو خاص طور پر امریکی موٹرساز صنعت کو بڑے پیمانے کا نقصان پہنچا۔ یہاں تک کہ جب جاپان کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو کم ترین سطح تک گرا دیا ۔ دوسری جانب برطانیہ نے عرب ممالک پر اپنی پابندیاں اٹھا لیں اور اس اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندیاں لگا دیں۔
عالمی برادری کی مشترکہ رائے یہ ہے کہ تیل پر انحصار کرنے والی اقتصادی پالیسیوں پر عمل پیرا عرب ممالک عالمی پابندیاں عائد نہیں کریں گے۔
تاہم، علاقائی بحران میں اضافہ اور روس-یوکرین جنگ میں ہو نے کی طرح توانائی کی ترسیلی لائنوں اور سڑکوں کو پہنچنے والے نقصانات ، عالمی برادری کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔
اس سارے عمل میں ایران پیٹرول اور قدرتی گیس پیدا کرنے والے دیگر ممالک سے مختلف ہے۔ تیل کی منڈیوں میں ایران کا کلیدی کردار بین الاقوامی منڈیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
خاص طور پر تہران اور تل ابیب کے دو طرفہ "میزائل حملے" کے عمل کی پیش رفت اور اسرائیل کی جانب سے ایرانی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانا تیل کی نرخوں پر براہ راست اثر انداز ہو سکتا ہے۔
اوپیک کے مطابق، ایران، جو دنیا کے 10 بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے، نے موسم گرما کے اختتام پر اپنی یومیہ پیداوار 3.3 ملین بیرل کے ساتھ گزشتہ 5 سال کی بلند ترین سطح تک کر دی ہے۔
یمن میں حوثیوں کی جانب سے بحیرہ احمر میں تیل کے ٹینکروں کو نشانہ بنانے سے بین الاقوامی تیل کی تجارت متاثر ہوئی۔
اس سے پیشتر مذکورہ علاقے سے سالانہ اوسطً 33 ہزار بحری جہاز گزرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تعداد 30 فیصد تک گر چکی ہے۔