کیونکہ۔45
ہمیں وہم ہوتا ہے کیوں کہ۔۔۔
آج ہم آپ کے ساتھ 'دیجاوو' یعنی 'واہمہ' نامی انسانی ذہنی صورتحال کے بارے میں بات کریں گے۔ 'دیجاوو' فرانسیسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں 'دیکھا ہوا'۔ یہ ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جس میں انسان کو کسی چیز یا واقعے کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے جیسے وہ اس چیز یا واقعے کو پہلے بھی دیکھ چُکا ہے۔ یہ احساس خواہ کیسا ہی قوّی کیوں نہ ہو اصل میں ہمیں پتا ہوتا ہے کہ یہ محض ایک واہمہ ہے۔ تو آئیے صحبت کا آغاز کرتے ہیں کہ ہمیں وہم ہوتا ہے کیوں کہ۔۔۔
سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ واہمے کی تعریف کیا ہے اور یہ ذہنی حالت کیسے کام کرتی ہے؟ سائنس دانوں کے مطابق واہمہ انسانی حافظے کا فریب کھانا ہے۔ ہمارا ذہن مستقل نئی یادوں کو حافظے میں محفوظ کرتا رہتا ہے اور اس دوران بعض اوقات حافظے کے نظام میں چھوٹے چھوٹے رخنے پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ رخنے انسان کو کسی موجودہ صورتحال سے پہلے بھی گزرنے کا احساس دِلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ذہن کسی نئی معلومات کو غلطی سے ماضی کے کسی تجربے سے مربوط کر دیتا ہے جس وجہ سے انسان کو تازہ صورتحال سے اپنایت کا احساس ہونے لگتا ہے۔
واہمہ کے پس پردہ کار فرما 'حافظہ نظریات' کافی حد تک دلچسپ ہیں۔ ان نظریات میں سے ایک یہ ہے کہ ہمارا ذہن معلومات کو ذخیرہ کرتے وقت قلیل المدّت حافظے یعنی 'شعور' اور طویل المدّت حافظے یعنی 'تحت الشعور' کے درمیان ارتباط میں غلطی کر دیتا ہے جس کی وجہ سے کوئی نئی صورتحال جانی پہچانی دِکھائی دینے لگتی ہے۔ عام حالات میں جب کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ہمارا ذہن اس واقعے کی یاد کو پہلے شعور میں منتقل کرتا اور بعد میں شعور سے چھانٹی کر کے زیادہ اہم یادوں کو طویل ا لمّدت حافظے یعنی تحت الشعور میں منتقل کر دیتا ہے۔ لیکن واہمے کے وقت انسانی ذہن اس مرحلے کو پھلانگ کر کسی نئی یاد کو شعور کی بجائے براہ راست تحت الشعور سے مربوط کر سکتا ہے۔ یعنی خواہ ہم اس لمحے سے پہلی دفعہ ہی کیوں نہ گزر رہے ہوں ہمارا ذہن اسے ماضی کے کسی لمحے کی تکرار کے طور پر قبول کرتا ہے۔
ایک اور نظریہ انسانی ذہن کا تعینِ وقت میں غلطی کا شکار ہونا ہے۔ اس نظریے کے مطابق ہمارا ذہن اخذ کردہ معلومات پر دو طریقوں یا نظاموں سے کام کرتا ہے۔ پہلا نظام شعوری ادراک ہے اور دوسرا نظام، نسبتاً زیادہ تیز رفتار یعنی، خودکار ادراک ہے۔ اگر ان دو نظاموں کے درمیان کوئی وقفہ آ جائے تو ہمارے دیکھے ہوئے کسی واقعے کا کچھ حصّہ خودکار ادراکی نظام کا حصّہ بن جاتا ہے لیکن انسان کو اس کا شعوری ادراک کچھ تاخیر سے ہو سکتا ہے۔ نتیجتاً یہ مختصر تاخیر ہمیں یہ احساس دِلاتی ہے جیسے ہم یہ واقعہ پہلے بھی کبھی دیکھ چُکے ہیں۔
عصبی یا نیورولوجک حوالے سے دیکھا جائے تو 'واہمے' کو دماغ کے ٹیمپرل لوب اور ہائپو کیمپس جیسے حافظے سے متعلقہ حصّوں سے متعلق خیال کیا جاتا ہے۔ ٹیمپرل لوب خاص طور پر یادوں کو محفوظ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ ٹیمپرل لوب مِرگی کے مریضوں میں واہمے کی کیفیت زیادہ تواتر سے دیکھنے میں آتی ہے۔ واہموں کے اس تواتر کا سبب یادوں کو محفوظ کرنے کے دوران دماغی اعصاب میں برقی بے ضابطگی ہو سکتا ہے۔ یعنی دماغ کے مذکورہ حصّوں میں الیکٹریکل فعالیت کی تبدیلیاں 'وہم 'کا سبب بن جاتی ہیں۔ لیکن 'واہمہ' صرف حافظے کی غلطی یا پھر نیورولوجک واقعہ ہی نہیں ہے بلکہ نفسیاتی اعتبار سے بھی دلچسپ پہلووں کا حامل ہے۔ ڈپریشن یعنی ذہنی دباو، تھکن یا پھر معلومات کی کثرت بھی واہموں میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔