پاکستان ڈائری 44
سردیوں کا موسم اور پاکستان میں سموگ کے مسائل پر ایک جائزہ
لاہور اور پنجاب کے میدانی علاقے ایک بار پھر سموگ کی زد میں ہیں اور اسکو ایمرجنسی قرار دے دیا گیا ہے۔ میں شاید چودہ سے پندرہ سال سے اس معاملے کی طرف نشاندہی کررہی ہو لیکن اشرافیہ مصروف ہے۔ ان کو شاید کھانسی نہیں آتی یا انکو دھواں محسوس نہیں ہوتا ورنہ اب تک شاید کوئی اقدامات کرلیتے۔ تاہم عوام شدید طریقے سے فضائی آلودگی کے اثرات محسوس کررہی ہے۔ سموگ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ سموگ یا دھندلا بادل عام دھند سے الگ ہے۔ اس میں موجود زرات مٹی گیس مختلف کمیائی مرکب اور پانی کے بخارات سے مل کر سموگ بنتی ہے۔ کوڑا جلانا ، فصلوں کو آگ لگانا، گاڑیوں اور صنعتوں کا دھواں سموگ کا سب سے بڑا ماخذ ہے۔ خشک سردی میں سموگ پنجاب کے میدانی علاقوں میں ڈیرہ جما لیتی ہے اور عوام کی بڑی تعداد اس سے کھانسی، سانس میں تکلیف، الرجی، دمہ، آنکھوں میں جلن، چہرے پر سرخی جلن، گلے میں خارش، نزلہ زکام، بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ لانگ رن میں اس سے کینسر خاص کر پھپھڑوں کا سرطان ہونے کا امکان بڑھ جاتاہے۔ لاہور اور پنجاب میں ہونے والی سموگ صرف لوکل انسانی سرگرمی کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس کی وجہ ہندوستان بھی ہے وہاں کسان فصلوں کو کٹائی کے بعد انکی جڑوں کو آگ لگا دیتے ہیں اسکے ساتھ دیوالی کی آتش بازی بھی اس میں ایک نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔۔
رہی سہی کسر ہماری پنجاب کی اشرافیہ کے ترقی والے منصوبے پورے کردیتے ہیں سیمنٹ کنکریٹ لوہے نے پنجاب خاص کر کہ لاہور کی ہریالی کو نگل لیا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں کھلنے والی سوسائٹیوں نے کھیت کھلیان باغ سب ملیا میٹ کردیئے۔ دریاوں ندی نالوں کے راستے پر بھی لوگوں کو پلاٹ بیچ دیے گیے۔ پانی کے ذخائر آلودہ ہوگئے ہیں ہوا زہریلی ہوگی ہے پر کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں۔ پنجاب میں کسی لاک ڈوان یا چار دن کے چھٹی دینے سے کیا ماحولیاتی آلودگی کم ہوجائے گی۔ کیا سموگ کم ہوجائے گی لاہور دوبارہ ہرابھرا ہوجائے گا ایسا نہیں ہے۔ اس وقت ہم ماحولیاتی ایمرجنسی کا سامنا کررہے ہیں اگر اس سے نمٹنے کے لیے جلد اقدامات نہیں کیے گئے تو حالیہ آنے والے سالوں میں سب سے زیادہ اموات ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سےہوگی۔
اس کے لیے ہم سب کو گرین انقلاب کی ضرورت ہے۔
اسکا حل کیا ہے ایک فوری حل ہے اور ایک طویل مدتی حل ہے۔ مصنوعی بارش کی جائے اسکا بجٹ نہیں تو پانی کا چھڑکاؤ کیا جائے۔ آگ لگانے پر پابندی ہونی چاہیے کوڑا تلف کیا جائے۔ ٹریفک کے بہاو کو کم کیا جائے۔ لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی دی جائے۔
باہر منہ ڈھانپ کر جائیں آنکھوں پر عینک لگائیں، گاڑی پر فوگ لائٹ کا استعمال کریں کیونکہ سموگ میں حد نگاہ صفر ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ گھر کے کھڑکیاں دروازے بند رکھیں۔ غیر ضروری باہر نا نکلیں۔ طبعیت خراب ہونے پر ہسپتال جائیں۔
اب اسکا طویل مدتی حل کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم ماحول دوست سرگرمیاں کریں درخت لگائیں اور دیسی درخت لگائیں جس میں نیم برگد، سہانجنا، بیری، شیریں، آم املتاس، جامن، کچنار، ارجن شیشم، گلمہور، اشوکا، پائن ٹری وغیرہ شامل ہیں۔
حکومت فوری طور پر دفاتر اور سکول کے اوقات کار تبدیل کرے اور کچھ عرصہ بچوں کو چھٹیاں دی جائیں،فیکڑیوں کا معائنہ کیا جائے، چمنی پر فلٹر لگائے جائیں ان لوگوں پر جرمانہ کیا جائے جو پروٹوکول فالونا کریں۔اس کےساتھ تمام گاڑیوں کی ٹیونگ کی جائے جو گاڑی دھواں چھوڑے اس کے ڈائیور کو جرمانہ کریں۔ کوئلہ کچرا جلانے پر پابندی ہونا چاہیے۔اس ساتھ فصلوں کی باقیات کو جلایا نہیں جائے اور آتش بازی پر مکمل پابندی ہونا چاہیے۔ حکومتی لوگ خود بھی ماسک پہنیں اور کم گاڑیوں کا استعمال کریں۔لاہور میں درخت کاٹنے پر مکمل پابندی ہونی چاہے۔ شاید پھر حالات ٹھیک ہوجائیں لیکن ابھی ایک کروڑ آبادی سے زائد والا شہر زہریلی فضا میں سانس لے رہا ہے۔شہر کے اردگرد لگے اینٹوں کے بھٹے بھی فضائی آلودگی کے ذمہ دار ہیں۔ جب موٹروے سے آپ لاہور داخل ہوتے ہیں تو آلودگی اور سموگ کی وجہ سے کتنی دیر آپ کو شہر نظر نہیں آتا۔سموگ ایک خاموش زہر قاتل ہے جس سے چرند پرند سب متاثر ہورہے ہیں اگر فوری اقدامات نہیں کئے تو آگے چل کر حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔
تحری: جویریہ صدیق