ترکیہ اور توانائی 40

شمسی توانائی کی ایجاد اور اس کا دنیا بھر میں بڑھتا ہوا استعمال

2193373
ترکیہ اور توانائی 40

کرہ ارض کو منور کرنے والا سورج، تہذیبوں اور تاریخ کی تشکیل میں ہمیشہ سب سے اہم عنصر رہا ہے۔ زمین پر موجود ہر جاندار، کھیت میں گندم سے لے کر باہر گھومنے پھرنے والے  شخص تک ہر  چیز سورج کی توانائی کی  محتاج ہے۔۔۔

تاہم، صنعتی انقلاب کے ساتھ، توانائی کی بڑھتی ہوئی ضرورت نے نہ صرف سورج کے حرارتی پہلو بلکہ اس کی توانائی کی پیداواری صلاحیت کو بھی  منظر عام پر لایا۔

شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کا ماضی  سنہ  1839  سے تعلق رکھتا ہے۔ فرانسیسی سائنسدان ایڈمنڈ بیکریل کی طرف سے پیش کردہ نظریے  نے اس پر کی گئی تحقیقات کی بدولت  پہلی بار 1954 میں تجارتی  ماہیت حاصل کی۔ پہلے سولر پینلز 1954 میں امریکہ میں تیار کیے گئے ۔

شمسی توانائی 1970 کی دہائی میں ترکیہ کے ایجنڈے میں  شامل  ہوئی۔ دنیا میں شمسی توانائی ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیشرفت کے  ساتھ ساتھ  اس پر یونیورسٹیوں، سرکاری اور نجی شعبوں نے توجہ دینا شروع کر دی ہے۔

شمسی توانائی پر پہلی قومی کانگریس 1975 میں ازمیر میں منعقد ہوئی۔ پہلی غیر فعال شمسی توانائی کی ایپلی کیشن 1975 میں مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی کے اندر قائم کی گئی ۔

ترکیہ میں اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے شمسی توانائی کی  اہم سطح کی استعداد کا مالک  ہے۔۔۔ وزارت توانائی  کی جانب سے تیار کردہ ترکیہ سولر انرجی پوٹینشل ایٹلس (GEPA) کے مطابق یومیہ دھوپ کا  دورانیہ 7.5   گھنٹے جبکہ  2 ہزار 737 گھنٹے  سالانہ ہے۔۔۔

اسی اٹلس کے مطابق اس چیز کا تعین ہوا ہے کہ ترکیہ کی سالانہ کل شمسی توانائی 1,527 kWh/m²  اور  یومیہ  مقدار kWh/m²  2 ہے۔

ان اعداد و شمار کی روشنی میں اس شعبے میں سرمایہ کاری دن بدن  بڑھ رہی ہے۔۔۔اگست 2024 کے آخر تک، ترکیہ کی  فعال   شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی سطح  113,932 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔

اگست 2024  میں قائم شدہ    توانائی کے ذرائعوں میں قابل تجدید توانائی وسائل  ایک اہم سطح پر ہونے کا مشاہدہ ہوا ہے۔

مجموعی توانائی کی پیداوار  کا تقریباً 42 فیصد   نامیاتی ایندھن سے حاصل کیا جا رہا ہے تو قابل تجدید توانائی کا حصہ تقریباً 60 فیصد ہے۔

28.3 فیصد بجلی ہائیڈرولک انرجی، 10.8 فیصدونڈ اور 1.5 فیصد جیوتھرمل توانائی کے ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے۔

قابل تجدید توانائی کے پیداواری ذرائع میں سے ایک اہم ترین ذریعہ سورج ہے... ترکیہ اپنی 16.2 فیصد بجلی شمسی توانائی سے حاصل کرتا ہے۔ مزید برآں  ترکیہ میں کل 29 ہزار 163 سولر پاور پلانٹس  فعال ہیں۔

تاہم، موجودہ صلاحیت کو بلند ترین سطح پر بروئے کار لانے کے لیے، مختلف  عمل درآمد کو بنیادی قانونی حیثیت  بھی  دی گئی ہے۔  ان میں فلوٹنگ سولر پاور پلانٹس بھی  شامل ہیں۔

ترکیہ کی  فلوٹنگ  سولر پاور پلانٹس کی استعداد  تقریباً 80 ہزار میگا واٹ ہے۔

قیام کے لیے  اراضی یا سخت زمین کی ضروت نہ ہونے والے  فلوٹنگ سولر پاور پلانٹس  کے قیام کے  لیے   کم حرکت والے سمندری علاقوں، ہائیڈرو الیکڑک پاور اسٹیشنز اور صاف  پانی کے ذخائر کے  مقامات اور  گندے پانی کا نکاس ہونے والے مصنوعی  تالاب کافی ہوتے ہیں۔ 

فلوٹنگ  شمسی توانائی کے پلانٹ آبی ذخائر، زرعی، صنعتی یا تجارتی زمینوں پر استعمال ہونے والے سولر پاور پلانٹس  سے مقابلہ نہیں کرتے۔ زمین اور چھت کی ضرورت  ہونے والے دوسرے سولر پاور پلانٹس کے مقابلے میں  انہیں  گنجان آبادی والے علاقوں کے قریب نصب کیا جا سکتا ہے۔

اراضی  کے لیے موزوں  سولر پینلز کے مقابلے میں فلوٹنگ سولر پاور پلانٹس متحرک حرکت کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ فلوٹنگ  پاور پلانٹس میں دھول اور گندگی  کی تہہ جمنے کے ماحول کا نسبتاً کم ہونا  بجلی کی پیداواری گنجائش میں گراوٹ آنے کا سد باب کرتا ہے۔

سرمایہ کاری کے ذریعے ، ترکیہ کی شمسی توانائی کی استعداد  آئندہ کے دس برسوں میں تقریباً  500 فیصد کی شرح کے ساتھ  تقریباً 53 گیگا واٹ تک پہنچنے کی توقع کی جاتی ہے۔ اس طرح  شمسی توانائی  کو بجلی پیدا کرنے کے سب سے اہم ذریعہ  کی حیثیت دلانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

دنیا  بھر میں شمسی توانائی کی سرمایہ کاری میں  ہر گزرتے برس کے ساتھ مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

2023 میں دنیا بھر میں بجلی کی پیداوار کا 5.5 فیصد شمسی توانائی سے حاصل کیا گیا۔ شمسی توانائی کے استعمال میں 23.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح  عالمی  سطح پر بجلی کی پیداوار میں سب سے زیادہ سالانہ اضافہ شمسی توانائی کے شعبے میں ہوا ہے۔

شمسی توانائی  کی پیداوار میں چین 3 لاکھ 6 ہزار 973 میگا واٹ کے ساتھ سرِ فہرست ہے۔

اس کےفوراً بعد  95 ہزار 209 میگاواٹ کے ساتھ امریکہ اور 74 ہزار 191 میگاواٹ کے ساتھ جاپان ہے۔ ان ممالک کے بعد جرمنی، بھارت، اٹلی، آسٹریلیا اور جنوبی کوریا کا نمبر آتا ہے۔ شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار میں ترکیہ سرفہرست 20 ممالک میں شامل ہے۔

 

 

 

 



متعللقہ خبریں