تجزیہ 35
اسرائیل حزب اللہ تصادم اور ایران کے اسرائیل پر ممکنہ حملے پر ایک جائزہ
جغرافیائی سیاسی مفادات کے سنگم پر واقع مشرق وسطیٰ ایک بار پھر اسرائیل، حزب اللہ اور ایران کے درمیان تصادم میں اضافے کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دور سے گزر رہا ہے۔ یہ تنازعہ صرف ایک مقامی مسئلہ نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے اس خطے کو تشکیل دینے والے گہرے اور پیچیدہ محرکات کا مظہر ہے ۔ موجودہ تصادم نہ صرف متعلقہ فریقین بلکہ ہر ایک کے اپنے اپنے مفادات اور ایجنڈے کے ساتھ دیگر علاقائی اور عالمی اداکاروں کے بھی شامل ہونے والے ایک وسیع سٹریٹیجک جدوجہد کی علامت ہیں۔ حالیہ ایام میں فریقین کے درمیان جھڑپوں میں اضافے کے ساتھ، مشرق وسطیٰ کا خطہ انتہائی کشیدہ اور تنازعات کے دور میں داخل ہو رہا ہے۔
سیتا سیکیورٹی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع کے حوالے سے جائزہ ۔۔۔
اس تنازعے کے مرکز میں ایران اور حزب اللہ کے تعلقات ہیں۔ ایران کے لیےحزب اللہ کو ایک اہم پراکسی قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو شام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتی ہے اور اسرائیلی اور مغربی جارحیت کے خلاف ایک مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے، حزب اللہ نے ایرانی فوجی، مالی تعاون اور نظریاتی حمایت سے فائدہ اٹھایا ہے، جس سے یہ لبنان میں اور زیادہ وسیع خطے میں ایک ملیشیا قوت سے ہٹ کر ایک بڑی سیاسی اور فوجی طاقت کی ماہیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ اتحاد مشرق وسطی میں اسرائیل اور مغربی سامراج کے طور پر قبول کردہ نظریات کے برخلاف مزاحمت کے مشترکہ پلیٹ فارم کو تشکیل دیتا ہے۔
دوسری طرف اسرائیل حزب اللہ کو ایک وجودی خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ حزب اللہ کی وسیع میزائل صلاحیت اور جنوبی لبنان میں اس کی موجودگی اسرائیل کی سلامتی کے لیے براہ راست چیلنج ہے۔ اسرائیل کے فوجی نظریے نے اس خطرے کے خلاف سد باب حملوں، انٹیلی جنس آپریشنز اور حزب اللہ کی سپلائی لائنوں کو منقطع کرنے پر زیادہ تر توجہ مرکوز رکھی ہے ، جو کہ عمومی طور پر فوجی کشیدگی کے طول پکڑنے کا موجب بنا ہے۔ ان کارروائیوں کا مقصد نہ صرف حزب اللہ کو کمزور کرنا ہے بلکہ تہران کو اس کے قریبی علاقوں میں اسرائیل کے اثر و رسوخ کی حدود کے بارے میں واضح پیغام دینا ہے۔ ایران کی سٹریٹیجک پالیسیاں اس کے وسیع تر علاقائی عزائم سے تشکیل پاتی ہیں۔ تہران کی حزب اللہ کی حمایت مشرق وسطیٰ میں عراق سے یمن تک پراکسی قوتوں کو فروغ دینے کی اس کی دیرینہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ایران اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے، اپنے حریفوں بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کو متوازن کرنے اور ایک ایسا بفر زون بنانا ہے جو اس کے خلاف براہ راست فوجی کارروائی کو مشکل بنا دے گا۔ لبنان میں پاوّں جمانے والی اپنی موجودگی اور اسرائیلی سرزمین کے اندر تک حملہ کرنے کی صلاحیت کے ساتھ حزب اللہ ، اس حکمت عملی کا ایک اہم جُزو ہے۔
ان جھڑپوں کے علاقائی سیاست پر اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل-حزب اللہ-ایران تصادم مشرق وسطیٰ میں موجودہ فرقہ وارانہ کشیدگی میں مزید شدت پیدا کر رہا ہے۔ حزب اللہ خود کو شیعہ مزاحمت کے ہراول دستے کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو اسرائیل کے اقدامات کو عمومی طور پر فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے، جس سے عراق، شام اور لبنان جیسے ممالک میں سنی اور شیعہ طبقوں میں مزید دوریاں آتی ہیں۔ یہ فرقہ وارانہ تقسیم نہ صرف ان ممالک کو غیر مستحکم کرتی ہے بلکہ علاقائی سفارت کاری اور مفاہمت کی کوششوں کو بھی کٹھن بناتی ہے۔
حزب اللہ کے ایک سیاسی اور عسکری اداکار ہونے والا لبنان خود کو خاص طور پر کسی غیر مستحکم پوزیشن میں پاتا ہے۔ اس گروپ کی شام میں موجودگی، اسرائیل کے ساتھ عسکری تصادم اور ایران کے ساتھ گہرے تعلقات نے لبنان کو کہیں زیادہ وسیع تر علاقائی جھڑپوں کے لیے ایک میدان جنگ بنا دیا ہے۔ ملک کا نازک سیاسی نظام، جو پہلے ہی معاشی تباہی اور سماجی بدامنی کی وجہ سے کمزور بن چکا ہے، اسرائیل کی حزب اللہ کے خلاف مسلسل دھمکیوں سے مزید غیر مستحکم ہو گیا ہے۔ ان قوتوں کے درمیان پھنسے شہری بہت کم سہارے یا تحفظ کے ساتھ تصادم کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔
قریبی خطے سے آگے، اسرائیل-حزب اللہ-ایران تصادم عالمی جغرافیائی سیاست پر بھی اہم اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ امریکہ، جو اسرائیل کا کٹر اتحادی ہے، حزب اللہ اور ایران کو مشرق وسطیٰ میں اپنی وسیع حکمت عملی میں مرکزی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ واشنگٹن کی اسرائیل کو فوجی اور سفارتی امداد خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی اس کی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔ یہ محرکات ایک غیر مستحکم صورتحال پیدا کرتی ہے جہاں کسی بھی قسم کی کشیدگی بیرونی طاقتوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ایک وسیع تر علاقائی حتیٰ کہ عالمی تصادم کا موجب بن سکتی ہے۔
اس تنازعے میں روس کا کردار خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ روس، شام میں ایران اور اسد حکومت دونوں کا ایک اہم اتحادی ہے،لیکن یہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو احتیاط سے منظم کرتا ہے اور اکثر متحارب فریقوں کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتا ہے۔ تا ہم ماسکو کے طویل المدتی اسٹریٹجک مفادات خطے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے میں مضمر ہیں، اور اسرائیل-حزب اللہ-ایران تصادم میں کسی قسم کا کوئی اضافہ روس کو اپنی پوزیشن کا ازسرنو جائزہ لینے پر مجبور کر سکتا ہے اور ممکنہ طور پر اتحاد کی از سر نو تشکیل کا باعث بن سکتا ہے۔
چین، اگرچہ اس میں براہ راست ملوث نہیں ہے، لیکن مشرق وسطیٰ میں خاص طور پر بیلٹ اینڈ روڈ منصوبےکی بدولت اس اقتصادی مفادات بڑھ رہے ہیں۔ خطے کے لیے بیجنگ کا نقطہ نظر بڑی حد تک عملی رہا ہے، جس میں فوجی تصادم کے بجائے اقتصادی سفارت کاری پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ لیکن اسرائیل-حزب اللہ-ایران تنازعات سے پیدا ہونے والا عدم استحکام چین کی سرمایہ کاری کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور اسے علاقائی سفارتکاری میں ممکنہ طور پر ثالث کے طور پر زیادہ فعال کردار ادا کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
نتیجتا، اسرائیل-حزب اللہ-ایران تنازعہ مشرق وسطیٰ کے پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں ایک اہم معاملے کا حامل ہے۔ یہ صرف دو طرفہ یا سہ فریقی مسئلہ نہیں ہے بلکہ علاقائی استحکام اور عالمی سلامتی کے لیے دور رس اثرات ہونے والا ایک تصادم ہے۔ یہ حالات اور پیش رفت جاری ہے تو عالمی برادری کو اس کے پس پردہ پوشیدہ محرکات پر گہری نظر رکھنی ہو گی اور کسی بھی قسم کی کشیدگی کے طول پکڑنے کے اثرات کے پیش نظر تیار رہنا چاہیے۔
متعللقہ خبریں
تجزیہ 40
ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے، ان کے ممکنہ نتائج اوراسرائیل کا متوقع جواب پر ایک خصوصی تجزیہ