ترک لوک  کہانیاں۔ 10

آج جو کہانی میں آپ کو سناو گی اس کا نام ہے "صبر، شُکر اور توّکل"

2183155
ترک لوک  کہانیاں۔ 10

آو بچو جلدی سے اپنی اپنی جگہ بیٹھ جاو کہانی گھر کھُلنے لگا ہے۔ آج جو کہانی میں آپ کو سناو گی اس کا نام ہے "صبر، شُکر اور توّکل"۔

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دُور دراز کے ایک دیس پر ایک عادل اور رحم دل بادشاہ حکومت کرتا تھا۔  بادشاہ  کی کُل کائنات اس کی اکلوتی  بیٹی تھی۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ اللہ نے ہر جان کا ایک امتحان رکھا ہے تو اس بادشاہ کا امتحان بھی اس کی یہی اکلوتی بیٹی تھی۔  شہزادی  کا پورا جسم زخموں سے بھرا ہوا تھا۔ بادشاہ نے اپنے ملک کے ہی نہیں دُور دراز  کے حکیموں تک سے علاج کروایا لیکن شہزادی کو اس  درد سے نجات نہ دِلا سکا۔  بادشا بے حد      آزردہ رہنے لگا۔ وہ پوری رعایا کے دُکھ درد  کا مداوا کرتا لیکن اپنی بیٹی کے دُکھ کا دارو نہیں ڈھونڈ پا رہا تھا۔ جیسے جیسے شہزادی کے زخم پھیلتے چلے جا رہے تھے اس کا چہرہ پہچاننا دشوار ہو رہا تھا۔ ایک دن بادشاہ ایسا دلگرفتہ ہوا کہ اس نے اپنے وزیروں کو بُلا کر کہا کہ میری اولاد مر ہی رہی ہے تو میں اس کی موت کو دیکھ نہیں سکوں گا۔ شہزادی کو لے جاو اور دُور کسی پہاڑ پر چھوڑ آو۔

 

وزیر وں مشیر وں کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ بادشاہ کو کیسے اور کیا دِلاسہ دیں۔ چار و ناچار  نیم بیہوش شہزادی کو لے جا کر ایک پہاڑ کے غار میں چھوڑ آتے ہیں۔  شہزادی بھی کسی  سے کوئی گلہ شکوہ  کئے بغیر اپنی قسمت پر صابر شاکر ہو جاتی ہے۔  ایک دن جب وزیروں مشروں کا چھوڑا ہوا کھانا اور پانی ختم ہو جاتا ہے تو شہزادی اپنی پیاس بُجھانے کے لئے  غار سے کچھ نیچے واقع  چشمے پر آتی ہے۔ چشمے پر پہنچ کر کیا دیکھتی ہے کہ ایک سانپ پانی میں منہ ڈالے   بیٹھا ہے۔ کچھ دیر بعد سانپ  تو اپنی پاس بُجھا کر رینگتا ہوا نگاہوں سے غائب ہو جاتا ہے لیکن شہزادی شش و پنج میں پڑ جاتی ہے کہ سانپ کے پیئے   ہوئے پانی کو پیئے یا ناں پیئے۔ آخر پیاس کی شدّت موت کے خوف پر حاوی ہو جاتی ہے اور شہزادی اس چشمے سے چند چُلّو  پانی کے پی لیتی ہے۔ پانی پینے کے بعد غار میں آ کر ایسے دراز ہو جاتی ہے جیسے موت کے انتظار میں ہو۔  اتنے میں اس پر گہری غنودگی چھا جاتی ہے۔ جب شہزادی  کی آنکھ کھُلتی ہے تو  کیا دیکھتی ہے کہ ساری زخم مندمل ہو چکے ہیں۔

 

شہزادی فوراً چشمے پر جاتی اور اب کی بار نہ صرف پانی پیتی بلکہ اپنے جسم پر بھی ملنا شروع کر دیتی ہے۔ کچھ ہی دنوں میں شہزادی بالکل صحت مند اور ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔ ایک دن وہاں سے ایک چرواہے کا گزر ہوتا ہے تو پہاڑ پر تن تنہا اتنی خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتا اور دُور سے ہی پُکار کر کہتا ہے "میں نہیں جانتا تم جن ہو یا پری۔ پر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ تمہارا بھی اور میرا بھی رب ایک ہی ہے۔ تم اپنی راہ لو اور مجھے میری راہ پر جانے دو"۔ شہزادی یہ سُن کر مسکراتی اور کہتی ہے کہ میں نہ تو جن ہوں ناں ہی پری۔ میں فلاں فلاں ملک کی شہزادی ہوں۔  شہزادی اپنی پوری داستان چرواہے کو سُناتی اور اس سے مدد مانگتی ہے۔ چرواہا کہتا ہے کہ میں تو غریب انسان ہوں کون سا دیس کہاں ہے مجھے تو کچھ علم نہیں ہاں تم چاہو تو میرا غریب خانہ حاضر ہے۔ شہزادی  چرواہے کے ساتھ اس کے گاوں میں جاتی اور اس کے ساتھ شادی کر لیتی  ہے۔ اللہ انہیں ایک خوبصورت بیٹے سے نوازتا ہے تو شہزادی اس کا نام 'صبر'  رکھتی ہے۔ کچھ عرصے بعد اس کے ہاں دوسرے بیٹے کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ اس کا نام 'شُکر' رکھ دیتی ہے۔ دوسرے بیٹے کی پیدائش پر شہزادی اپنے شوہر سے فرمائش کرتی ہے کہ میرے گھر کے ساتھ ایک کمرہ بنوا  دو۔ میں اسے مہمان خانہ بناوں گی اور جو بھی بھوکا پیاسا راہ گیر  آیا اس کی مہمان نوازی کروں گی۔ چرواہا  اپنی بیوی کی خواہش کو فوراً پورا کر دیتا  اور اپنے جھونپڑے کے ساتھ ایک اور جھونپڑا بنا  کر اسے راہی راگیروں مسافروں  کے لئے وقف کر دیتا ہے۔

 

دوسری طرف بادشاہ اپنی بیٹی کی جدائی میں دن بہ دن  کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک دن اس کی برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو بھیس بدل کر بیٹی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ چلتا چلتا اس گاوں میں پہنچتا اور دیہاتیوں سے  پہاڑ پر چھوڑی ہوئی شہزادی کے بارے میں پوچھتا ہے۔ دیہاتی کہتے ہیں کہ اس کا تو ہمارے چرواہے کو ہی علم ہو سکتا ہے کیونکہ وہی بکریاں چرانے کے لئے پہاڑ پر جاتا ہے اور گاوں سے گزرنے والے سب مسافر بھی اُسی کے مہمان خانے میں ٹھہرتے ہیں ۔ جب بادشاہ چرواہے کے پاس جاتا  تو چرواہا اسے اپنے مہمان خانے میں بٹھا کر اپنی بیوی کو خبر دیتا ہے۔ شہزادی جب اپنے باپ کو دیکھتی ہے تو دِل ہی دِل میں خوشی سے نہال ہو کر صبر اور شُکر کو پکارتی اور مہمان کا ہاتھ منہ دھُلانے  کا کہتی ہے۔ لڑکوں  کے نام سُن کر بادشاہ کہتا ہے ان ناموں کی کوئی وجہ بھی ہے؟ شہزادی تو پہلی نظر میں ہی اپنے باپ کو پہچان  چُکی تھی لہٰذا پوری آپ بیتی کہہ سُناتی ہے۔ شہزادی  کہتی ہے کہ جب اللہ نے مجھے امتحان میں ڈالا تو میں نے ہر تکلیف پر شکایت نہیں  صبر کیا ۔ میرا پہلا بیٹا اسی صبر کا پھل ہے اس لئے میں نے اس کا نام صبر رکھا ہے۔ جب اللہ نے مجھے صحت دی اور گھربار دیا تو میں نے تکبر نہیں شُکر کیا تو اللہ نے مجھے دوسرے بیٹے سے نوازا اس لئے میں نے اس کا نام شُکر رکھا ہے۔ اتنی نعمتوں کے بعد میری ایک ہی آروز تھی کہ کسی طرح میری اپنے باپ سے ملاقات ہو جائے۔ اپنے دیس کا راستہ تو مجھے معلوم نہیں تھا اس  لئے آتے جاتے راہگیروں سے راستہ پوچھنے کے لئے میں نے یہ مہمان خانہ بنوایا  ہے۔ یعنی جب اللہ نے مجھے جُدائی کے امتحان میں ڈالا تو میں نے اس کی  تھکی ہاری بھوکی پیاسی مخلوق کی خدمت شروع کر دی اور اسی پر توّکل کیا۔  اسی توّکل کے بدلے میں اللہ نے  آج مجھے آپ سے بھی مِلا دیا ہے۔ بادشاہ سلامت آپ کی بیمار بیٹی میں ہی ہوں۔ بادشاہ یہ سب سُن کر آب دیدہ ہو جاتا  اور اپنی بیٹی کو گلے سے لگا لیتا ہے۔

 

جی تو بچو آج کی کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ تکلیف ، دُکھ اور آزمائش کیسی ہی سخت کیوں نہ ہو ہمّت، صبر اور کوشش کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اپنی زندگی کو بہتری کی طرف لے جانے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہیے اور کوشش کے بعد صرف اللہ پر توّکل کرنا چاہیے۔

 



متعللقہ خبریں