کیونکہ۔35

ہم سب چارحروف سے مل کر بنے ہیں کیونکہ۔۔۔

2179565
کیونکہ۔35

آج ہم آپ کے ساتھ جس موضوع پر بات کریں گے وہ اس عالمِ رنگ و بُو کے تمام جانداروں  کے درمیان فرق  اور رنگا رنگی ہے۔  روز مرّہ زندگی میں ہم مختلف رنگوں، آنکھوں، قد اور وزن کے لاکھوں انسانوں کو دیکھتے ہیں ۔ ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہے؟  اس سوال کو جواب ڈھونڈنے کے لئے آئیے بات کو اپنے مخصوص جملے سے شروع کرتے ہیں کہ "ہم سب چارحروف سے مل کر بنے ہیں کیونکہ۔۔۔"

 

ڈی این اے یعنی 'ڈی آکسیرائبونوکلک ایسڈ' ایک ایسا مالیکیول ہے جو تمام جانداروں کی جنیاتی معلومات کا ذخیرہ  ہوتا ہے۔ انسانی ڈی این اے کی ساخت ڈبل ہیلکس ساخت ہے۔  یہ ڈی این اے' نیوکلیوٹائیڈ' نامی  چھوٹے یونٹوں  پر  اور  ہر نیوکلیوٹائیڈایک فاسفیٹ گروپ، ایک شکر مالیکیول اور ایک نائٹروجنس بیس پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ نائٹروجنس بیسیں اے، سی، جی اور ٹی  پر مشتمل چار حروف ہیں۔ A یعنی ایڈنین، C یعنی سائٹوسین، G یعنی گوانین اور T یعنی تھائمین۔

 

ایڈنین، سائٹوسین، گوانین اور تھائمین ڈی این اے کی بنیاد ہیں۔ ڈی این اے ڈبل ہیلکس کے دو دھاگے آمنے سامنے کی شکل میں ایک دوسرے سے جُڑے ہوتے ہیں اور یہ جوڑ طے شدہ اصولوں کے تحت لگتا ہے۔ ایڈنین ہمیشہ تھائمین  کے ساتھ اور گوانین ہمیشہ سائٹوسین کے ساتھ جُڑتا ہے۔  ڈی این اے دھاگوں کے باہمی جوڑ  کے ان اصولوں کی مدد سے جنیاتی معلومات درست اور نپے تُلے انداز میں نقل ہوتی ہے۔ ڈی این  اے  کے اندر وہ تمام جین موجود ہوتے ہیں جو جسمانی نظام کے خصائص کا تعین کرتے ہیں۔ جین مخصوص پروٹین کی پیداوار کے لئے ضروری معلومات کے مالک ہوتے ہیں اور یہ پروٹین جسم کے زیادہ تر بیالوجک مراحل کی تکمیل میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری آنکھوں کے رنگ کا تعین کرنا، آنکھوں کا رنگ  بنانے  والے پروٹین کی ذمہ داری ہے۔

 

ہر خلیے کی تقسیم میں ڈی این اے کا بھی نقل  ہونا ضروری ہوتا ہے۔ نقل کے اس مرحلے میں ڈی این کے دھاگے کھُلتے اور دونوں دھاگوں کےA، C، G اور T ایک دوسرے سے طے شدہ ترتیب میں جُڑ جاتے ہیں۔ اس طرح ہر نیا خلیہ اصل خلیے  کی ہو بہو کاپی بن جاتا ہے اور ہر نئے خلیے میں بالکل وہی معلومات موجود ہوتی ہیں جو پہلے خلیے میں تھیں۔  A، C، G اور T کے دھاگوں میں معمولی تبدیلیاں  بہت بڑی جنیاتی تبدیلیوں کا سبب بن سکتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں عام طور پر  قدرتی مراحل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ بعض اوقات  تبدیلی کے مراحل میں ایسی غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں جنہیں  میوٹیشن کہا جاتا ہے۔ میوٹیشن  تبدیلیاں زیادہ تر بے ضرر ہوتی ہیں  لیکن کبھی کبھی بیماریوں  یا پھر جنیاتی خرابی کا سبب بن سکتی ہیں۔ بعض اوقات ایسی میوٹیشن بھی دیکھنے میں آتی ہیں جو متعلقہ شخص میں مثبت اثرات پیدا کرتی ہیں۔

 

2003 میں مکمل ہونے والے ایک بین الاقوامی تحقیقاتی منصوبے 'انسانی جینوم' نے انسانی ڈی این اے کے تمام جنیاتی کوڈ  کھولنے میں کامیابی حاصل کی اور اس طرح انسانی جینز کی ساخت کے بارے میں وسیع پیمانے پر معلومات حاصل ہوئیں۔ ان معلومات نے موروثی بیماریوں کے علاج  سے لے کر کسی شخص  کی مخصوص طبّی نشوونما تک متعدد شعبوں میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔

 


ٹیگز: #کیونکہ

متعللقہ خبریں