ترک لوک کہانیاں۔07
آج جو کہانی میں آپ کو سنانے جا رہی ہوں اس کا نام ہے "جیسی کرنی ویسی بھرنی"
آو بچو جلدی سے جمع ہو جاو کہانی شروع ہونے لگی ہے۔ آج جو کہانی میں آپ کو سنانے جا رہی ہوں اس کا نام ہے "جیسی کرنی ویسی بھرنی"۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت کے سات بیٹے تھے۔ ساتوں ایک سے بڑھ کر ایک خوبرو اور دلیر ۔ سب بھائیوں کی خواہش تھی کہ ان کی بہن بھی ہو۔ عورت کے ہاں آٹھویں بچے کی پیدائش کے دن قریب آئے تو اس کے بیٹوں نے کہا کہ ہم شکار پر جا رہے ہیں اگر ہمارے پیچھے لڑکا پیدا ہو تو گھر کی چھت پر ایک جھنڈا لگا دینا اور اگر لڑکی پیدا ہو تو دو جھنڈے لگا دیا۔ اگر لڑکا ہوا تو ہم دور سے ہی پہچان کر واپس چلے جائیں گے کیونکہ اب ہمیں بہن چاہیے ۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کی ماں نے بیٹی کو جنم دیا۔ ماں بے حد خوش ہوئی اور گھر کی چھت پر دو جھنڈے لگا دیئے۔ شکار سے لوٹتے بھائیوں نے جب دُور سے دو جھنڈوں کو دیکھا تو خوشی میں ناچتے گاتے گھر کی طرف جانا شروع کر دیا۔
ابھی ان کی بہن کم سن ہی تھی کہ ان کے ماں باپ آگے پیچھے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ بھائیوں نے اپنی بہن کی دیکھ بھال اور پرورش میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بھائیوں نے اپنی بہن کو گھر داری ہی نہیں شکار کا ہنر بھی سکھایا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب لڑکی بڑی ہوئی تو وہ صرف خوش شکل ہی نہیں خوش اطوار بھی تھی۔ طاقتور اور دلیر بھی تھی۔ جب اس کے بھائی شکار پر جاتے تو اسے بھی ساتھ لے جاتے۔ لیکن یہ سب گھر کی بہووں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔
ایک دن بڑی بھابھی نے کہا کہ یہ ایسے نہیں چلے گا ہمیں اس لڑکی کو ٹھکانے لگانے کا کوئی طریقہ سوچنا پڑے گا۔
درمیانی بہو نے کہا کہ اسے سانپ کی کھال کو خشخاش کے ساتھ پیس کر کھلاتے ہیں۔ جیسے ہی لڑکی سو جائے تو اس کے منہ میں انگوٹھی پھینک دیتے ہیں تاکہ اس کے حلق میں اٹک جائے اور اس سے پھر کبھی بولا ہی نہ جا سکے۔
ساری بہوئیں تجویز کو بہت پسند کرتی ہیں۔
سانپ کی کھال اور خشخاش والی روٹی کھا کر لڑکی پر ایسی غنودگی طاری ہوتی ہے کہ اسے کسی چیز کا ہوش ہی نہیں رہتا ۔ بھابھیاں نیند کے دوران اس کے منہ میں انگوٹھی پھینکتی دیتی ہیں۔
دن گزرتے رہتے ہیں لڑکی نہ صرف بولنے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے بلکہ اس کا پیٹ بھی پھولنا شروع ہو جاتا ہے۔ بھابھیاں اس پر طرح طرح کے الزام لگا کر بھائیوں کو بہن سے متنقّر کر دیتی ہیں۔ ایک دن بھائی اپنی بیویوں اور گاوں کے لوگوں کی چہ میگوئیوں سے تنگ آ کر اپنی بہن کو جنگل میں چھوڑ آتے ہیں۔
لڑکی جنگل میں جیسے تیسے خونخوار جانوروں سے بچی رہتی ہے۔ ایک دن جنگل میں ایک خانہ بدوش قافلہ اترتا ہے۔ قافلے کا چرواہا بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے تن تنہا، بے حال اور پھُولے ہوئے پیٹ والی لڑکی کو دیکھ کر بہت حیران ہوتا اور اس سے پوچھتا ہے کہ وہ جنگل میں تنہا کیا کر رہی ہے۔ لیکن جب لڑکی کے منہ سے کوئی آواز نہیں نکلتی تو دیس دیس پھرنے والا خانہ بدوش چرواہا معاملے کو فوراً بھانپ لیتا ہے۔
چرواہا لڑکی کو لے کر اپنے خیمے میں جاتا اور اسے ایک جگہ بٹھا کر اس کے سامنے ایک گڑھا کھود دیتا ہے۔ اس گڑھے کو دودھ سے بھر دیتا اور لڑکی کی آنکھیں باندھ کر کہتا ہے کہ منہ کھول کر اس گڑھے پر جھک جاو۔ جیسے ہی لڑکی جھکتی ہے تو اس معدے میں جمع سانپ دودھ کی بُو پا کر ایک ایک باہر نکلنا اور دودھ کے گڑھے میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
سانپوں کے ساتھ اس کے حلق میں اٹکی ہوئی انگوٹھی بھی نکل جاتی ہے۔ لڑکی سُکھ کا سانس لیتی اور ساری آپ بیتی چرواہے کو کہہ سُناتی ہے۔ دونوں شادی کر لیتے اور وہیں جھونپڑی ڈال کر رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ انہیں ایک چاند جیسا بیٹا دیتا ہے۔ ایک دن لڑکی کے بھائی جنگل میں پھرتے پھراتے چرواہے کی جھونپڑی میں آتے اور کہتے ہیں کہ بھائی ہم بہت بھوکے پیاسے ہیں کیا تمہارے پاس کچھ کھانے پینے کو ہے۔ لڑکی جیسے ہی اپنے بھائیوں کو دیکھتی ہے تو منہ ڈھانپ کر شوہر کو بتاتی ہے کہ یہ اس کے بھائی ہیں۔ چرواہا ان کی آو بھگت کرتا اور حال احوال پوچھتا ہے۔ بھائی بتاتے ہیں کہ ہمارے گاوں میں وباء پھوٹی تھی جس میں ہماری بیویوں سمیت گاوں کے بہت سے لوگ مارے گئے ہیں۔ ہمیں پتا ہے کہ یہ اس زیادتی کا نتیجہ ہے جو ہم نے اپنی بہن سے کی تھی۔ ہم بہت نادم ہیں لیکن اب اس ندامت کا کیا فائدہ؟ کیا خبر جنگل میں ہماری بہن پر کیا بیتی ہے؟ جیسے ہی بہن اپنے بھائیوں کی داستان سُنتی ہے تو بیتاب ہو کر چہرے سے نقاب ہٹا دیتی ہے۔ بھائی اپنی بہن اور بھانجے کو دیکھ کر بے حد خوش ہوتے اور اپنے کئے کی معافی مانگتے ہیں۔
جی تو بچوں بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ انسان کو اپنا بویا ہوا کبھی نہ کبھی ضرور کاٹنا پڑتا ہے کیونکہ اللہ بہت عادل ہے۔