تجزیہ 32
حماس کے رہنبما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد اسرائیل مخالف حملوں کے احتمال کا جائزہ
نیتن یاہو کے ما تحت اسرائیل، پورے مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونکنے والی ایک جارحانہ پالیسی اور فوجی اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ایک طرف یہ غزہ میں نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے تو دوسری طرف لبنان اور ایران میں قتل و غارت گری کر کے ایک بڑی جنگ چھیڑنے کے درپے ہے۔ ایران اور اس کے اتحادی اسرائیل کے خلاف سخت گیرفوجی جواب کی تیاری کر رہے ہیں۔ توقع کے مطابق اگر کوئی بڑا حملہ کیا جاتا ہے تو اس سے علاقائی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔
سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر تجزیہ ۔۔۔
نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل غزہ میں اپنی نسل کشی اور علاقائی اشتعال انگیزی پر عمل پیرا ہے۔ اسرائیل نے پہلے بیروت میں حزب اللہ کے کمانڈر فوادشکر اور پھر تہران میں حماس کے سیاسی بیورو چیف اسماعیل ہنیہ کو ایک مذموم حملے میں شہید کیا۔ ایرانی صدر پیزشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود ہنیہ کو دارالحکومت کے شمال میں سعد آباد کمپلیکس میں انصار المہدی حفاظتی دستوں کی رہائش کے طور پر استعمال کردہ بسیج الزہرہ بنگلے کہ جسے ہائی سیکیورٹی کی حامل غازیوں کی رہائش گاہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے میں قتل کر دیا گیا۔ ایرانی ذرائع کے مطابق یہ حملہ مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سے کیا گیا۔
ہنیہ فلسطینی مزاحمت کے سیاسی رہنما تھے، آپ اپنی زندگی کو فلسطینی دعوے کے لیے وقف کرنے والی ایک اہم شخصیت تھے۔ اگرچہ ان کی موت انتہائی افسوسناک ہے لیکن فلسطینی مزاحمت یقیناً قائم و دائم رہے گی۔ یہ ہلاکتیں اور نقصانات مزاحمت کے عزم کو بڑھانے کے سوا کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔
اسرائیل اس جارحانہ طرز ِاقدام کو امریکہ میں وائٹ ہاؤس میں موجود طاقت کے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کر رہا ہے اور اس میں جنگ کو علاقائی شکل دینے کی حکمت عملی بھی کار فرما ہے۔ یہ ایران اور اس کے اتحادیوں کو شہہ دلانے اور انہیں کارروائی کرنے پر اکسانے والی ایک چال ہے۔اگر ایران صحیح معنوں میں کوئی حقیقی جواب نہ دے سکا تو اسے ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس کی مزاحمت اور ریاستی وقار کو زدپہنچائے گا۔ لہذا جوابی کارروائی کا احتمال قوی دکھائی دے رہا ہے۔ ایرانی فیصلہ سازوں اور فوجی حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل کو بڑا اور سخت جواب دیا جائے گا۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نصراللہ کی تازہ تقریر میں بھی ایسے ہی بیانات شامل تھے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ "اب ہم ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔"
یقیناً ایران کا ماضی، اس کی بلند پایہ بیان بازی، اور حقیقی قدم اٹھانے میں اس کی ہچکچاہٹ انسانوں کو یہ سوال پوچھنے پر مجبور کررہی ہے کہ "آیا کہ"۔
تاہم اس بار مجھے نہیں لگتا کہ ایران اور اس کے اتحادیوں کے پاس کوئی اور راستہ ہے۔ حالات ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں کہ ایران، ریاستی عزت کے تحفظ سے بالاتر ہو کر، جوابی حملے اور میدان میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے ہی نشانہ بننے سے بچ سکتا ہے۔
میدان میں ہونے والی پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضروری تیاریوں کے بعد آنے والے دنوں میں غالباً مزاحمتی محور کے تمام اجزاء کے ساتھ مل کر اسرائیل پر مؤثر طریقے سے حملہ کیا جائے گا۔ ایرانی سرزمین سے ، لبنان میں حزب اللہ، عراق اور شام میں شیعہ ملیشیا اور یمن میں حوثیوں تک پھیلے ہوئے محور سے بیک وقت میزائل اور کامیکاز ڈراونز حملوں سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی فریق نے بھی اس سطح کے ایک بڑے حملے کی تیاری کی ہے۔ خاصکر شمالی محاذ پر حزب اللہ کے ممکنہ میزائل اور ڈراون دخول کے بر خلاف نئے فضائی دفاعی نظام کو نصب کیا گیا ہے، پناہ گاہوں کو تیار کیا جا رہا ہے۔ امریکہ ایک بار پھر اسرائیل کے دفاع اور دوسرے فریقین کو باز رکھنے کے لیے خطے میں فوجی دستوں کی تعیناتی کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
نیتن یاہو کا مقصد امریکہ کو براہ راست جنگ میں شا مل کرنا ہے۔ تاہم، اگر امریکہ مشرق وسطیٰ میں دوبارہ جنگ میں داخل ہوتا ہے، تو یہ اچانک یوکرینی محاذ کی تقدیر کوروس کے حق میں بدل دے گا اور چین کے لیے نئے جیو پولیٹیکل مواقع پیدا کر دے گا۔ بے شک بہت سے مفروضوں کی بنیاد پر ہمارے سامنے مختلف منظرنامے موجود ہیں، لیکن حالات باقاعدہ فوجی حربوں اور تصادم سے ہٹ کر افراتفری اور انتشار کے رحجان کا اشارہ دے رہے ہیں۔ ایک بار جن بوتل سے باہر نکل آیا تو پھر حالات کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔