پاکستان ڈائری-2024-32
خواتین ملک کی ترقی کا کلیدی حصہ ہیں۔ اگر انکو کسی بھی میدان میں پیچھے کرنے کی کوشش کی جائے گی تو نظام جمود کا شکار ہوجائے گا
پاکستان ڈائری- 2024-32
خواتین ملک کی ترقی کا کلیدی حصہ ہیں۔ اگر انکو کسی بھی میدان میں پیچھے کرنے کی کوشش کی جائے گی تو نظام جمود کا شکار ہوجائے گا۔ رجیم چینج کے بعد سے خواتین کو سیاست سے الگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وہ جو آبادی کا نصف ہیں اگر انکو ڈرایا دبایا جائے گا ہراساں کرکے چپ کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ تو وہ مزید طاقت ور بن کر ابھریں گی وہ ہاتھ جو مہندی سے مزین ہوتے ہیں اور چوڑیوں کی کھنک سے شور کرتے ہیں۔ وقت آنے پر وہ ہاتھ کدال، ڈنڈا، قلم اور تلوار بھی اٹھانے سے گریز نہیں کرتے۔ عورت آگ میں تپ کر کندن بن جاتی ہے اور کندن کے سامنے کھڑا رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ 2022 کے بعد ہم انسانی حقوق، سیاست، مزاحمت اور جمہوریت کے شعبے میں نئے چہرے ابھرتے دیکھے۔ وہ جن کے نام کے ساتھ آزادی رائے لازم و ملزوم تھا وہ بت پاش پاش ہوگئے اور انکی جگہ ان لوگوں نے لے لی جو واقعی میں ہی پاکستان میں انسانی حقوق کی جنگ لڑرہے تھے۔ پہلے یہ حقوق کی لڑائی بلوچستان اور کے پی میں ہوتی تھی لیکن اس بار پنجاب اور اسلام آباد کے عوام نے ظلم کا سامنا کیا۔
ان کے گھروں پر راتوں کو چھاپے مارے گئے مرد عورت بوڑھے بچے کی تفریق کئے بنا گرفتاریاں ہوئیں۔ ان لوگوں پر دہشتگردی اور بغاوت کے پرچے ہوئے۔عام شہری کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی رات کے دو بجے انکے گھر میں داخل ہوجائے اور سارا گھر توڑ پھوڑ کر پھر کسی کو بھی گرفتار کرکے لے جائے۔میڈیا بھی انکو مجرم بنا کر پیش کررہا تھا۔ بہت کم آوازیں تھیں جو انکے لیے بول رہی تھیں۔ کچھ لوگ خوف کی وجہ سے چپ تھے اور کچھ مصلحتوں کا شکار تھے۔ پہلی بار ملک کی تاریخ میں ایسا ہوا کہ سیاسی خواتین کو دہشتگردوں کی طرح گرفتار کیا گیا۔ ان کا قصور کیا تھا ان کا قصور یہ تھا کہ وہ سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی سپورٹر اور کارکنان تھیں۔ وہ صرف اپنے لیڈر عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لئے نکلی تھیں۔ یہ پڑھی لکھی خواتین بال بچے دار اور کچھ تو بہت ہی متمول گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ اپنے گھر بار اور بزنس سے اس لئے باہر آئی تاکہ اپنا جمہوری حق استعمال کرسکیں لیکن ان پر دہشتگردی کا لیبل لگا دیا گیا۔ انکو گرفتار کرکے باقی خواتین کو بھی پیغام دیا گیا کہ سیاست سے دور رہو۔ سیاست کوئی بری چیز تو ہے نہیں اور خواتین جس بھی شعبے میں جانا چاہیں وہ جاسکتی ہیں۔ چاہیے وہ سیاست ہو اور کسی بھی جماعت کا حصہ بن سکتی ہیں۔
پی ٹی آئی کی خواتین کو جیلوں میں قید کردیا لیکن پاکستان میں موجود فیمنسٹ گروپس، خواتین صحافی اور اینکرز چپ رہیں۔ خواتین سیاست دان بھی کچھ نہیں بولیں یہاں تک کہ انسانی حقوق کے ادارے بھی خاموش رہے میرے نزدیک شاید وہ ایکٹوازم اپنی پسند نا پسند کے حساب سے کرتے ہیں اس میں میرٹ کا کچھ لینا دینا نہیں۔ جن خواتین کو جیلوں میں بند کیا گیا ان میں بزرگ رہنما یاسمین راشد، عالیہ حمزہ، خدیجہ شاہ، عائشہ بھٹہ، سمیعہ اسد، صنم جاوید، صبوحی انعام، طیبہ راجہ اور دیگر خواتین شامل تھیں۔ بات یہاں تک نہیں رکی کچھ خواتین پر دباو ڈالا گیا کہ وہ پریس کانفرنس کرکے پارٹی چھوڑیں جن میں شیریں مزاری، مسرت چیمہ، ملیکہ بخاری دیگر شامل تھیں۔ تاہم ملیکہ بخاری نے ہمت نا ہاری اور بطور بیرسٹر ان لوگوں کی پیروی شروع کردی جو گزشتہ برس سے جیل میں ہیں۔ اس ہی طرح جیل میں خواتین اپنے نظریے پر ڈٹ گئی اور ڈیل سے انکار کردیا۔ جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی نے خواتین کو بڑی تعداد میں ٹکٹ دیے۔ تاہم دھاندلی کرکے انکی نشستیں ان سے چھین لی گئ۔ جن میں یاسمین راشد، ریحانہ ڈار، مہربانو قریشی، سمابیہ طاہر، عالیہ حمزہ اور ایمان طاہر شامل تھیں۔ عوام بھی اس بات پر حیران تھے کہ پہلے کس طرح خواتین کو گرفتار کرکے ان کے جمہوری حقوق ان سے چھینے گئے اور کھلے عام دھاندلی کرکے خواتین کی نشستیں ان سے چھین لی گئ۔
بات یہاں تک نہیں رکی بلکے تحریک انصاف کی اسمبلی میں موجود مخصوص نشستوں کو بھی ہڑپنے کی کوشش کی گئ جوکہ طویل قانونی جنگ کے بعد انکو ملنے جارہی ہیں۔ اس میں بھی حکومت نے اپنی مرضی کا بل پاس کرکے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ تمام غیر جمہوری طاقتیں جتنی بھی کوشش کرلیں وہ پاکستان کی خواتین کی ہمت توڑ نہیں پائے۔ جیل سے رہائی کے بعد خدیجہ شاہ اس وقت ان قیدیوں کی مدد میں مصروف ہیں جو صاحب استطاعت نہیں ہیں۔ وہ انکے گھریلو اخراجات، قانونی معاونت اور طبی امور پر انکی مدد کررہی ہیں۔ عائشہ بھٹہ، سمیعہ اسد اس ہی طرح پارٹی کے ساتھ کھڑی ہیں۔ صنم جاوید اور طیبہ راجہ کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ عملی سیاست کی قدم رکھ چکی ہیں۔ اب عالیہ حمزہ کی رہائی خوش آئند ہے وہ پندرہ ماہ کی قید کے دوران ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئ ہیں لیکن ان کی ہمت نہیں ٹوٹی انکی کم سن بیٹیاں انکے لیے مہم چلاتی رہیں۔ اب بھی یاسمین راشد اور بشری بی بی جیل میں ہیں۔ ایک بزرگ خاتون اور ایک باپردہ خاتون کو کیوں انتقام کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ ان کو بھی رہا کیا جائے۔ خواتین کو مکمل سیاسی حقوق دینے کے لئے ضروری ہے کہ انکو انکی جنرل نشستیں واپس کی جائیں اور انکی مخصوص نشستوں کو لے کر اب مزید چالیں چلنا بند کی جائیں۔ تحریک انصاف ایک جمہوری جماعت ہے یہاں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین موجود ہیں اور یہاں موروثی سیاست موجود نہیں۔ دوسری جماعتوں میں موروثیت ہے اور اقتدار ایک ہی خاندان کے گرد گھومتا ہے ۔ نئی نسل اس چیز کو پسند نہیں کرتی وہ ملک میں اصل جمہوریت دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ یہ خواب تب ہی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جب خواتین کو سیاست کے میدان میں جوہر دکھانے کا موقع دیا جائے۔ ایسی سیاست جو میرٹ پر ہو اس میں اقربا پروری کرپشن اور موروثیت شامل نا ہو۔