ترک لوک کہانیاں۔06

آج جو کہانی میں آپ کو سُنانے جا رہی ہوں اس کا نام ہے "چار نصیحتیں"

2172494
ترک لوک کہانیاں۔06

آئیے بچو کہانی گھر کھُل گیا ہے۔ آج جو کہانی میں آپ کو سُنانے جا رہی ہوں اس کا نام ہے "چار نصیحتیں"

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاوں میں ایک غریب  نوجوان رہتا تھا۔ کام ملتا تو کچھ کما لیتا نہ ملتا تو بھوکا سو رہتا تھا۔ ایک طرف بھوک اور افلاس دوسری طرف تنہائی۔  نوجوان نے سوچا کہ کیوں نہ شادی کر لی جائے  اور کچھ نہیں تو ہم دو ہوں گے اور مِل کر زندگی کے مسائل کا مقابلہ کر لیں گے۔ یہ سوچ کر اس نے شادی کر لی۔  کچھ دن  جیسے تیسے گزر بسر کرنے کے بعد  اس نے دیکھا کہ حقیقت وہ نہیں جو اس نے سوچی تھی۔ آخر اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اے بھلی مانس! میں روزی روٹی کی تلاش میں سفر پر جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو کچھ کما کر واپس لوٹ آوں گا۔  نوجوان یہ کہہ کر گھر سے نکل کھڑا ہوتا ہے۔

 

چلتے چلتے اسے ایک حویلی نظر آتی ہے۔ نوجوان اس حویلی کے دروازے پر چوکیداری شروع کر دیتا ہے۔ وقت  گزرتا رہتا ہے ، دن مہینوں اور مہینے سالوں میں بدل جاتے  ہیں۔  نوجوان چوکیدار بوڑھا ہو جاتا ہے۔ ایک دن وہ حویلی کے مالک کے پاس جاتا اور کہتا ہے صاحب آج مجھے تمہاری حویلی کی چوکیداری کرتے پورے بیس سال گزر گئے ہیں۔ اب میں اپنے گھر واپس جانا چاہتا ہوں۔ جو کچھ میرا حق حساب بنتا ہے مجھے دو  تاکہ میں روانہ ہو سکوں۔ حویلی کا مالک جیب میں ہاتھ ڈالتا اور تین سکّے نکال کر اسے تھما دیتا ہے۔  غریب بوڑھا سکّے لے کر جیب میں رکھتا، صاحب کو سلام کر کے  دوبارہ حویلی کے دروازے پر آ جاتا ہے۔ اگلے دن سفر پر روانگی سے قبل حویلی کے مالک کو الوداعی سلام کرنے آتا ہے تو مالک اسے کہتا ہے کہ اگر تم مجھے ایک سکّہ دو میں تمہیں کروڑوں کی نصیحت کروں گا ۔ غریب آدمی ایک سکّہ اُسے دے دیتا اور نہایت اشتیاق سے اس کی نصیحت سُننے کے لئے بیٹھ جاتا ہے۔ حویلی کا مالک کہتا ہے کہ "میری بات غور سے سُنو ۔۔۔ کبھی بھی رات کے وقت سفر نہ کرنا"۔

غریب آدمی یہ نصیحت سُن کر خوشی خوشی باہر نکلنے لگتا ہے کہ مالک دوبارہ اُسے  پُکارتا اور کہتا ہے کہ اگر تم مجھے ایک سکّہ دو تو میں تمہیں سونے جیسے نصیحت کروں گا۔

غریب آدمی جیب سے ایک سکّہ نکال کر اُسے دے دیتا اور دوبارہ اس  کی نصیحت پر کان لگا لیتا ہے۔

مالک کہتا ہے کہ "کبھی بھی ایسے پانی میں نہ کودنا جس کی تہہ تمہیں دِکھائی نہ دے رہی ہو"۔

غریب آدمی یہ نصیحت سُن کر بہت خوش ہوتا اور باہر کا رُخ کرتا ہے۔

باہر نکلنے سے پہلے مالک کی آواز پھر اُس کے کانوں سے ٹکراتی ہے۔ اگر تم مجھے ایک اور سکّہ دو تو میں تمہیں ہیروں جیسی نصیحت کروں گا۔ غریب آدمی آخری سکّہ بھی مالک کو واپس دے دیتا ہے۔

مالک کہتا ہے کہ " کبھی ایسے معاملے پر بات نہ کرنا جس کی حقیقت تمہیں  معلوم نہ ہو"۔

غریب آدمی یہ نصیحت بھی پَلّو سے باندھ کر روانہ ہونے  کا ارادہ کرتا ہے تو مالک کہتا ہے کہ ایک نصیحت میں بطور تحفہ تمہیں دینا چاہتا ہوں۔

آدمی بہت خوش ہوتا اور کہتا ہے کہو مالک وہ کون سے نصیحت ہے۔

حویلی کا مالک کہتا ہے کہ" کبھی بھی ایسے معاملے میں ٹانگ نہ اڑانا جس سے تم بے خبر ہو"

 

غریب آدمی یہ نصیحتیں سُنتا اور دِل ہی دِل میں انہیں دُہراتا ہوا سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔  راستے میں اسے ایک کاروان نظر آتا ہے۔ وہ کاروان کے مِیر  کے پاس جاتا اور کہتا ہے کہ میں تنہا سفر کر رہا ہوں اگر تم اجازت دو تو میں بھی تمہارے قافلے میں شامل ہو جاوں۔ قافلے کا سردار اجازت دے دیتا ہے۔ چلتے چلتے رات پڑ جاتی ہے۔ قافلے کا سردار رات کے وقت بھی سفر جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے تو غریب چوکیدار  کہتا ہے کہ تم جاتے ہو  جاو میں تو رات کے وقت سفر نہیں کروں گا۔ قافلے کے لوگ بہت ہنستے ہیں کہ لو جی ہمارے پاس اتنا قیمتی سازوسامان ہے ہم تو نہیں ڈرتے اور یہ مفلس  ڈرتا ہے۔ جب رات گزر جاتی ہے تو غریب آدمی  دوبارہ سفر شروع کر دیتا ہے۔ راستے میں کیا دیکھتا  ہے کہ قافلہ سارے کا سارا ہلاک ہو چکا ہے۔ آدمی کہتا ہے کہ لو جی ایک سکّہ واپس مِل گیا۔

آگے بڑھتا ہے تو اسے ایک گُھڑ سوار دِکھائی دیتا ہے۔ غریب آدمی اُسے کہتا  ہے کہ مجھے بھی ساتھ لے لو تو  کیا ہی اچھا ہو۔ گھڑ سوار اسے بھی ساتھ لے کر گھوڑے کو دوڑانا شروع کر دیتا ہے۔  اتنے میں ان کے راستے میں ایک دریا آتا ہے۔ غریب آدمی کہتا ہے بس مجھے یہاں اتار دو میں تو اس دریا میں نہیں جاوں گا۔ گھڑ سوار کہتا ہے کہ کیا تم نہیں دیکھ کہ  میرا گھوڑا  کیسا بَرق رفتار ہے۔  اس دریا کو تو پلک جھپکنے میں پار کر جائے گا۔ جب غریب آدمی کسی طرح نہیں مانتا تو گھڑ سوار گھوڑے کو دریا میں اتار دیتا ہے ۔ ابھی تھوڑا ہی آگے جاتا ہے کہ دریا گھوڑے سمیت اسے بہا لے جاتا ہے۔ غریب آدمی کہتا ہے کہ دوسرا سکّہ بھی واپس مل گیا۔

 

غریب آدمی دریا کے کنارے کنارے چلتا  ایسی جگہ ڈھوڈ لیتا ہے جہاں سے دریا کے پیندے کو دیکھتے دیکھتے اسے پار کرنا ممکن ہو۔   چلتے چلتے شام ڈھلنے لگتی ہے اور غریب آدمی کو بھوک بھی ستانے لگتی ہے تو ایک گاوں  میں جاکر کر گاوں کے مسافر خانے  میں ٹھہر جاتا ہے۔  مسافر خانے میں کیا دیکھتا ہے کہ ایک طرف ایک کُتا بندھا ہوا ہے اور دوسرے طرف سونے چاندی کے زیورات  سے لدی ایک عورت بندھی ہوئی ہے۔ کھانا لانے والا ملازم  پہلے کتّے کے آگے کھانا ڈالتا اور بچا ہوا عورت کے آگے رکھ دیتا ہے۔ غریب  آدمی بہت حیران ہوتا ہے لیکن اپنے مالک کی نصیحت کی وجہ سے اس معاملے پر کوئی بات نہیں کرتا۔ خاموشی سے اپنا کھانا کھا کر سو رہتا ہے۔ صبح جب سفر پر روانہ ہوتا ہے کہ وڈیرے کے نوکر اسے پکڑ کر وڈیرے کے پاس لے جاتے ہیں۔ غریب آدمی ڈر سے تھر تھر  کانپتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھ سے کیا غلطی ہو گئی ہے جو تم نے مجھے پکڑ  لیا ہے۔ وڈیرہ کہتا ہے کہ جو کچھ تم نے دیکھا اسے دیکھ کر چُپ رہنا ممکن نہیں تھا ایسا کیا ہے جس نے تمہیں بولنے سے روکے رکھا۔ آدمی کہتا ہے کہ میرے مالک نے مجھے نصیحت کی تھی کہ جس بات کی اصلّیت کا تمہیں پتہ نہ ہو اس پر رائے زنی نہ کرنا۔ وڈیرہ یہ سُن کر بہت خوش ہوتا اور اسے سونے کی اشرفیوں سے بھری تھیلی دے کر کہتا ہے کہ اچھا کیا تم نے بات نہیں کہ ورنہ تمہارا حال بھی تم سے پہلے والوں جیسا ہوتا ۔ انہیں  سوچے سمجھے بغیر بولنے کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔

 

غریب آدمی کہتا ہے لو جی تیسرا  سکّہ بھی واپس مل گیا اور اس کے ساتھ ساتھ سونے کی اشرفیاں بھی۔ آدمی خوشی خوشی اپنے گاوں پہنچ جاتا ہے۔ جب اپنے گھر پہنچتا ہے تو اسے اپنے گھر میں ایک نوجوان مرد دِکھائی دیتا  ہے۔ آدمی غم و غصے کے عالم میں ابھی اس نوجوان پر جھپٹنے کو ہی ہوتا ہے کہ اسے اپنے مالک کی آخری نصیحت یاد آ جاتی ہے کہ "کبھی بھی ایسے معاملے میں ٹانگ نہ اڑانا جس کی حقیقت سے تم بے خبر ہو"۔ یہ سوچتے ہی وہ اپنی بیوی کو پکارتا اور  کہتا ہے کہ ہمارے گھر میں یہ اجنبی کون ہے۔ اس کی بیوی کہتی ہے یہ ہمارا بیٹا ہے۔ بیس سال پہلے جب تم سفر پر روانہ ہوئے تھے تو یہ میرے پیٹ میں تھا۔ غریب آدمی بے حد خوش ہوتا اور اللہ کا لاکھ لاکھ شُکر کرتا ہے کہ جو سفر اس نے کیا وہ رائیگاں نہیں گیا۔

 

جی تو بچو اس کہانی نے ہمیں سکھایا ہے کہ جس چیز کو ہم رزق کہتے ہیں وہ صرف  مادی چیزوں مثلاً روٹی پانی، کپڑے  اور مکان  وغیرہ کا ہی نام نہیں ہے بلکہ  تجربہ، علم اور اچھی نصیحت بھی رزق ہے ایسا رزق جو ہمارے اندر کے انسان  کی پرورش کرتا اور اسے  بہتر شکل میں سوچنے اور بہتر شکل میں کام کرنے کے قابل بناتا ہے۔

 



متعللقہ خبریں