کیونکہ۔21

آج ہم آپ کے ساتھ سلطنتِ روم کے بارے میں بات کریں گے

2141625
کیونکہ۔21

آج ہم آپ کے ساتھ سلطنتِ روم کے بارے میں بات کریں گے۔ یہ شاہی دور تاریخ میں صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے ہی نہیں اپنی تعمیراتی صلاحیتوں کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ رومی شہنشاہیت افریقہ، ایشیاء اور یورپ یعنی اس دور کی معلوم دنیا کے ایک بڑے حصے پر تقریباً 1500سال تک حکمدار رہی۔ آج ہم، اس حکمداری کی یاد گار ایک کہاوت سے پروگرام کا آغاز کریں گے۔ کہاوت یہ ہے کہ"ہر راستہ روم کی طرف جاتا ہے"۔

 

سڑکوں کی تعمیر اور ان کی دیکھ بھال رومی حکومت کی ایک اہم سیاسی حکمت عملی  تھی۔ رومی شہنشاہ اپنی سلطنت  کو وسعت دینے، اس کا نظم و نسق چلانے اور فوجی نقل و حرکت  میں سہولت کے لئے راستوں کی تعمیر کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ تخت نشین ہونے والے ہر بادشاہ کی کوششوں سے رومی سلطنت میں سڑکوں کا ایک وسیع جال بچھ گیا اور یہی چیز رومی سلطنت کے اس قدر طویل عرصے تک برقرار رہنے کا بنیادی سبب بھی بنی۔ رومیوں کی تعمیر کردہ سڑکوں کی کُل لمبائی 2 لاکھ کلو میٹر تھی اور یہ سڑکیں روم سے شروع ہو کر برطانیہ، پورے مغربی یورپ، شمالی یورپ میں سوٹزر لینڈ تک اور مشرق میں اناطولیہ سے آگے ایران تک پھیلی ہوئی تھیں۔ کھُلی اور ہموار سڑکوں کا یہ جال فوری فوجی نقل و حرکت اور تجارت میں سہولت  پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا اور نتیجتاً سلطنت کی مضبوطی کا سبب بنتا تھا۔

 

رومی سلطنت میں سڑکیں، راستوں میں ہموار پتھر بچھا کر یا پھر اونچے نیچے راستوں کو ہموار کرنے والے لوازمات کے ساتھ تیار کی جاتی تھیں۔ یہ راستے عام طور پر پائیدار شکل میں ڈیزائن کئے جاتے تھے۔ رومی شاہراہیں خاص طور پر اپنی دو رویہ اور نسبتاً بلند فٹ پاتھوں کی وجہ سے پہچانی جاتی تھیں۔ ان شاہراہوں کی باقاعدہ تعمیر و مرّمت کے لئے خاص طور پر ایک فوجی یونٹ قائم کی گئی تھی۔

 

روم میں سڑکیں صرف فوجی نقل و حرکت اور تجارت میں ہی آسانی پیدا نہیں کرتیں تھی بلکہ سلطنت کے مختلف علاقوں کے درمیان ثقافتی میل جول میں بھی سہولت لاتی تھیں۔  سڑکوں کی تعمیر و کشادگی پر مبنی اس سیاسی حکمت عملی نے سلطنت کو وسعت دینے، اس کا نظم و نسق چلانے اور فوجی طاقت کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

 

شاہراہوں کے اس جال کی وجہ سے تقریباً سب راستے روم یعنی سلطنت کے دارالحکومت کی طرف جاتے دِکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس کہاوت کہ "تمام راستے روم کو جاتے ہیں" کی تہہ میں ایک اور حقیقت کارفرما ہے۔ اس کہاوت کو پہلی دفعہ 1175 میں ایک فرانسیسی شاعر ایلن ڈی لِل نے استعمال کیا۔ کہاوت کا 14 ویں صدی عیسوی میں وفات پانے والے رومی شہنشاہ آگسٹس  کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ شہنشاہ آگسٹس نے روم کو اور اپنی ذات کو دنیا کا مرکز دِکھانے کے لئے دارالحکومت روم میں ایک سنگ میل نصب کروایا اور اس سنگ میل کو سارے راستوں کے حساب  کے لئے نقطہ آغاز اعلان کر دیا۔ تقریباً 300 سال کے بعد جب شہنشاہ کونسٹن ٹائن تخت نشین ہوا تو اس نے آگسٹس کے سنگ میل سے مشابہ ایک اور سنگ میل استنبول میں نصب کروایا اور اس جگہ کو دنیا کا مرکز اعلان کر دیا۔

 


ٹیگز: #کیونکہ

متعللقہ خبریں