تجزیہ 37

ترکیہ میں صدارتی و پارلیمانی انتخابات اور اس کے خطے میں اثرات کے بارے میں ماہر کا تجزیہ

1985761
تجزیہ 37

ترکیہ انتخابی دوڑ میں اب اپنے انجام کے قریب پہنچ رہا ہے۔ 14 مئی   کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات  ترکیہ کے اعتبار  سے انتہائی کلیدی اہمیت کے حامل ہیں، کئی ایک عنوانات  کے لحاظ سے  اتحادیوں کی پوزیشن  میں فرق نمایاں ہونے کی وجہ سے  ان کے نئے  ترکیہ کے  تصورات بھی یکساں نہیں  ہیں۔ تاہم ان موضوعات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شاید سب سے اہم امتیازات میں سے ایک ہے۔ یہ پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ ایردوان  کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی مساوات میں  موجودہ  انسداد دہشت گردی کے خلاف جنگ اسی  طریقے سے جاری رہے گی، البتہ   کمال کلچ دار اولو کے فتح یاب ہونے کی صورت میں اس  تناظر میں سنگین   سطح کی غیر یقینی صورتحال اور خدشات  پیدا ہو سکتے ہیں۔

سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔

مشرق وسطی کے  خطے میں طاقت کے کھیل ہمیشہ  جھڑپوں اور افراتفری کے ماحول میں  کسی سانچے میں ڈھلتے ہیں تو  ترکیہ کے نقطہ نظر سے اس سے مشابہہ کسی صورتحال کا ذکر نہیں کیا جا سکتا۔  علاقائی اداکاروں اور عالمی طاقتوں دونوں کے لحاظ سے مشرق وسطیٰ میں مفادات کے تحفظ کے لیے پراکسی عناصر  کا استعمال معمول  کا حصہ بن چکا ہے۔اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترکیہ میں PKK کے ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر منظر عام پر آئی تھی  بعد  میں شام، عراق اور ایران میں اس کی ذیلی تنظیموں کے  ظہور پذیر ہونے  سے   طاقت کی نوعیت کے حوالے سے جدوجہد، ترکیہ کے لیے  صفحہ ہستی کے طور پر ابھری۔

دہشت گرد تنظیم  PKK کو خاص طور پر اسد حکومت سے وابستہ رابطوں کے ذریعےمنظم کرتے ہوئے  ترکیہ  کے خلاف استعمال کیا گیا۔ بیسیویوں سالوں تک   ہزاروں انسان دہشت گردی کی بنا پر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔

  تنظیم کے شام میں ڈھانچے نے سال 2011 میں ملک میں خانہ جنگی سے استفادہ کرتے ہوئے  طاقت پکڑی  اور اس نے اپنے اثر ِ رسوخ کو قائم کرنا شروع کر دیا۔  تنظیم  نے شام میں وائے پی جی  کے نام    سے مسلح دستوں کو تشکیل دیتے ہوئے عفرین، عین العرب اور خاصیکہ  علاقوں کے کنٹرول کو اپنے ہاتھ میں لیا  اور    خود مختار علاقوں کو تشکیل دیا۔  PKK نے شام میں رونما ہونے والی پیش رفت کو ایک اہم موقع کی نگاہ سے دیکھا۔   قندیل میں اپنے وجود کو جاری رکھنے والے کے سی کے  ڈھانچے  نے امرالی میں عبداللہ اوجالان اور ترکیہ  میں اس  کے سیاسی بازو پی وائے ڈی۔ وائے پی جی کو اپنی حرکات و سکنات کے  عنصر کے طور پر دیکھا۔  ترکیہ میں "سلسلہ حل" سے استفادہ کرتے ہوئے اس نے تنظیم کی ساری  توانائی  کو شام منتقل کر دیا۔  ترکیہ میں 15 جولائی 2016 کو بغاوت اقدام  کے نمایاں عناصر میں سے ایک شام تھا۔  ترکیہ نے  ایک طویل عرصے سے اس مشکل خطے میں استحکام کو برقرار رکھتے ہوئے  ایک عظیم  ریاست  بننے کی جدوجہد کی ہے  تو یہ حالیہ چند برسوں سے اپنے اقدامات کی بدولت ایک عالمی اداکار بننے کی جانب قدم بہ قدم  آگے بڑھ رہا  ہے۔  ترکیہ  اور  اس کے عالمی طاقت بننے کےنظریے    کے برخلاف  دہشت گردی  دائمہ ایک آلہ کار کے  طور پر ظہور پذیر ہوتی رہی ہے۔ اس تناظر میں فیتو کی 15 جولائی کی بغاوت کی کوشش کے اصل مقصد کو ؛  ترکیہ کی  نئی خارجہ پالیسیوں کہ جن سے  یہ  خفا  تھی کو بدلنے اور شام میں   دہشت گرد ریاست کے قیام کے خلاف ترکیہ کی مداخلت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی  کرنے کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔

ترکیہ کی جانب سے  15 جولائی کے بعد ایک نیا سیکورٹی نظریہ و ضع کرنے کی صورت  میں ایک بڑی سرحد پار فوجی کارروائی کا آغاز، صدر ایردوان کے پرعزم سیاسی ارادے کے ساتھ ہوا  جو کہ  بنیادی طور پر اس اقدام کے جواب کی حیثیت رکھتا ہے۔اس اعتبار سے  15 جولائی ایک عظیم سنگ میل کے طور  ہمارے سامنے ہے۔ اسٹریٹجک اداروں سے فیتو کا صفایا کرنا، خاص طور پر سیکیورٹی بیوروکریسی میں سرایت کرنے والے اداروں سے ان کی صفائی، اور PKK/YPG دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فعال جدوجہد،  نئی صدی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں ترکیہ کو ایک عالمی طاقت کی ماہیت دلانے والی    سیاست کے نمایاں پہلو کے  طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں۔  ترکیہ اس  کٹھن  جغرافیہ میں  اپنے پاوں پر براجمان رہنے کے لیے  اپنی چالوں پر   ذاتی  اصولوں  کے مطابق عمل پیرا  ہے۔

لہذا  ترکیہ کی پی کے کے ۔ وائے پی جی کے خلاف جنگ  سیاست سے بالاتر اور قومی سلامتی  سے تعلق رکھنے والا ایک معاملہ ہے۔  اپوزیشن کو بھی اس معاملے  کا اسی نقطہ نظر سے جائزہ لینا لازم و ملزوم ہے۔ تا ہم  چھ رکنی  اتحاد کی حامل اپوزیشن کے اندر  دہشت گردی کے خلاف جدی  اتحاد کی حامل اپوزیشن کے ادروجہد  کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر کا وجود باعث ِ تشویش ے سے مختلف نقطہ نظر کی موجودگی  ہے۔  ملت اتحاد کے صدارتی امیدوار کمال کلچ دار اولو  کی جانب سے پی کے کے کی سیاسی شاخ   عوامی ڈیموکریٹک پارٹی ۔  گرین لیفٹ پارٹی سے تعاون کرنا ، ان کے ممکنہ اقتدار کے عہد میں  انسداد ِ دہشت گردی کے معاملات کے کمزور پڑنے کی سوچ کو جنم دے رہا ہے۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں اپنے موقف کو واضح کرے اور ان خدشات کو رفع دفع کرنے کی حرکات و سکنات کو اپنائے۔



متعللقہ خبریں