تجزیہ 36
داعش کے چوتھے سرغنہ کے خلاف ترک قومی خفیہ سروس کی کاروائی اور تنظیم کی شام میں از سر نو منظم ہونے کی کاروائیوں پر ایک جائزہ
داعش دہشت گرد تنظیم کے اعلان کو جب ہم ایک سنگِ میل کے طور پر تصور کرتے ہیں تو ابو حسینda قریشی کا نام اس دہشت گرد تنظیم کے چوتھے سرغنہ کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ ابو بکر بغدادی کے 26 اکتوبر 2019 کو ہلاک کیے جانے کے بعد دو نمبر کے سرغنہ ابو ہاشمی کو فروری 2022 میں اور اس کے بعد کے لیڈر ابو حسن کو اکتوبر 2022 میں امریکی تعاون کے حامل آپریشنز میں غیر فعال بنایا گیا تھا۔ داعش کے آخری سرغنہ کو ترک قومی خفیہ سروس کی خصوصی ٹیم کے ذریعے بے بس کیا گیا ہے۔ در حقیقت ابو حسین کے اصلی نام کے بارے میں تا حال کوئی معلومات موجود نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ انادولو ایجنسی کے ذرائع سے تعلق رکھنے والی خبروں کے مطابق کہا جا تا ہے کہ ابو حسین نے سال 2013 میں تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس نے سرعت سے اپنا نام بنا لیا تھا۔ یہ صورتحال داعش کے بعد کی نسل کے نئے دور میں کہیں زیادہ موثر حیثیت حاصل کرنے کا اشارہ ثابت ہو سکتی ہے۔
سیتا سیکیورٹی ریسرچ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔
26 اکتوبر 2019 کو داعش کے سرغنہ ابو بکر بغدادی کو غیر فعال بنائے جانے کے ساتھ در اصل داعش کے خاصکر عراق اور شام میں زوال پذیر ہونے کےسلسلے کی توثیق ہوئی تھی۔ ابو ہاشمی کی سال 2022 میں ہلاکت کے ساتھ 15 ماہ کے اندر داعش کے تین رہنماوں کو غیر فعال کیا گیا ہے۔ داعش ماضی کی طرح از سر نو منظم ہونے کی کوشش کر رہی ہے تو اس کے اس عمل میں کامیاب نہ ہونے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گرد تنظیم کےنہ صرف سرغنوں بلکہ اس کے اعلی سطحی عہدیداروں کے گرفتار ہونے یا غیر فعال ہونے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ ان تمام تر عوامل کے کے باوجود، خاص طور پر ہول کیمپ میں داعش سے منسلک ارکان کے خاندانوں اور بچوں کی بحالی اور ان کو شہری ہونے والے ممالک کی طرف سے واپس قبول نہ کرنا ، مذکورہ کیمپوں میں داعش کی ایک نئی نسل کے ظہور پذیر ہونے کے امکانات کو جنم دے رہا ہے۔ کیونکہ متعدد مقامی اور بین الاقوامی رپورٹیں ان کیمپوں میں داعش کے از سر نو منظم ہونے اور خاصکر اس کے نظریے کے پھیلاو کے جاری ہونے کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
بغدادی کے بعد غیر فعال بنائے جانے والے تیسرے لیڈر ابو حسین کے خلاف 29 اپریل کو ایک کاروائی کی گئی تھی۔ ترک اور عالمی رائے عامہ نے صدر ایردوان کے 30 اپریل کو جاری کردہ بیان کے ذریعے آگاہی حاصل کی تھی۔ بعد ازاں اس آپریشن سے متعلق تفصیلات سے انادولو ایجنسی نے اطلاعات دی تھیں۔ جن کے مطابق ابو حسین کے خلاف آپریشن 4 گھنٹے تک جاری رہا تھا اور اسے ہتھیار ڈالنے کی اپیل کی گئی تھی۔ عفرین ۔ جندرس علاقے میں واقع ایک عمارت میں موجود ابو حسین کے اپنے مقام کو بدلنے کی خفیہ اطلاع پانے پر اس کاروائی کا فیصلہ کیا گیا تھا اور دہشت گرد تنظیم کے سرغنہ کو زندہ گرفتار کرنے کا ہدف مقرر کرنے کا اندازہ ہوتا ہے۔ درحقیقت آپریشن کی جانےو الی عمارت کے مناظر کا جائزہ لینے سے اس بات کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ عمارت پر فضا سے بمباری نہیں کی گئی تھی۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قومی خفیہ سروس نے اس شخص کو زندہ پکڑنے کے لیے کافی کوششیں صرف کی تھیں، اس کاروائی کا 4 گھنٹے تک جاری رہنا اس حقیقت کا مظہر ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی اطلاع دی گئی ہے کہ ابو حسین نے گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنے جسم پر باندھے دھماکہ خیز مواد سے اپنے آپ کو ہوا میں اڑا دیا تھا۔ ایسا ہے کہ داعش سے قبل کے سرغنوں ابو بکر بغدادی اور ابو ہاشم نے بھی اسی طریقے سے خود سوزی کی تھی۔ یہ واضح ہے کہ دہشت گرد تنظیم کے اندر یہ حرکت ایک ریت بن چکی ہے۔
ابو بکر بغدادی اور بعد کے داعش کے تمام تر سرغنوں کا شام میں ہلاک ہونا قابل توجہ ایک دیگر معاملہ ہے۔
جیسا کہ سب کو علم ہے، اگرچہ داعش عراق میں قائم ایک دہشت گرد تنظیم ہے، لیکن یہ 2012-2013 کے درمیانی عرصے سے لیکر شام میں اپنے وجود کو تقویت دیتی چلی آرہی ہے۔ دیکھا جا رہا ہے کہ خاص طور پر قیادت کے معاملے میں اس نے شام میں اپنے پاوں جما لیے ہیں۔ ابو حسین کے علاوہ کے تمام تر سرغنوں کو شمالی شام میں ہی بے اثر کیا گیا ہے اور محض ابو حسین ڈیرہ میں مارا گیا تاور محض ابو حسن ڈیرا میںھا۔ یہ صورتحال داعش عناصر کے آزادی ملنے والے علاقوں میں کہیں زیادہ آسانی سے روپوش ہو سکنے کا مفہوم رکھتی ہے۔ در حقیقت یہ علاقے سالہا سال سے افراتفری اور جنگی اڈوں کو تشکیل دے رہے ہیں۔ تاہم سال 2020 سے لیکر اس کی حدود میں عدم تبدیلی اور جنگ کے فرنٹ لائن پر جھڑپوں کی شکل میں جاری رہنے نے مقامی سیکیورٹی عناصر اور ترک قومی خفیہ سروس کی توجہ کو ایک محدود علاقے پر مرکوز کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ جس پر قومی خفیہ سروس نے حالیہ برسوں میں بہت ساری انسداد دہشت گردی کارروائیاں کی ہیں۔