تجزیہ 29
روس ۔ یوکرین جنگ اور مغربی ممالک کی روس کو کمزور بنانے کی پالیسیوں پر ایک جائزہ

موسم میں بہتری آنے کے ساتھ ہی روس اور یوکرین کے درمیان جھڑپوں میں بھی تیزی آنے کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ خاصکر بہموت شہر پر واگنر کی قیادت میں روسی حملوں میں شدت آئی ہے تو مغربی ممالک کی جانب سے یوکرین کو عسکری اور اقتصادی امداد میں بھی ہر گزرتے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ کی قیادت میں تمام تر مغربی ممالک روس کے برخلاف محاذ آرائی کر رہے ہیں تو چین کے تردد پر مبنی موقف کو مزید برقرار رکھنے یا نہ رکھنے اور روس سے تعاون کرنے یا نہ کرنے کے سوالات ایجنڈے میں شامل ہو چکے ہیں۔
سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔
روس کی یوکرین پر قبضے کی کاروائی کو شروع ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے تو میدان میں عسکری جھڑپوں سمیت اقتصادی و سیاسی جدوجہد بھی اپنے جوبن پر ہے۔ خاص طور پر امریکی قیادت میں آنگلو۔ساکسون ممالک روس کو کمزور بنانے کی جنگ کی ماہیت اختیار کرنے والے اس سلسلے کو آخری دم تک جاری رکھنے پر اٹل دکھائی دے رہے ہیں۔ فوجی لحاظ سے جدید ٹیکنالوجی کے حامل بھاری اسلحہ کی یوکرین کو ترسیل جاری ہے ، علاوہ ازیں اس ملک کو یورپی یونین کے بھی تعاون سے لا محدو امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ ان تمام عوامل کے ساتھ ساتھ روس پر انتہائی سخت پابندیاں بھی نمایاں ہیں۔ عام معنوں میں موجودہ حالات اس چیز کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ امریکہ روس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونے تک موجودہ پالیسیوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ روس نے ابتک صحیح معنوں میں کیوبا، ایران ، کوریا جیسے چھوٹے ممالک سے تعاون حاصل کیا ہے تو یہ اپنے بڑے اتحادی چین سے مطلوبہ سطح پر تعاون حاصل کرنے سے قاصر رہا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین روس کی قبضے کی کاروائی کو قبضے کے طور پر تسلیم نہیں کرتا اور یہ روس پر عائد کردہ پابندیوں کے بھی برخلاف ہے۔ مزید برآں چین اقتصادی لحاظ سے نمایاں سطح کی درآمدات کرتے ہوئے روس سے تعاون کررہا ہے۔ کلیدی سطح کی ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ذریعے یہ مغربی ممالک کی پابندیوں کے باعث روس کے کم سطح پر نقصان کا سامنا کرنے کے امکانات فراہم کر رہا ہے۔ تا ہم اس نے ابتک اس ملک کو فوجی امداد فراہم نہیں کی۔
چین نے جنگ کے اوائل میں روس کے اس سے مشاورت کیے بغیر قبضے کی کاروائی کو شروع کرنے پر مثبت موقف کا مظاہرہ نہیں کیا تھا ، اور اس چیز کے بذات خود اس کے لیے بھی مغربی ممالک کے ساتھ قبل ازوقت کسی محاذ آرائی کو شہ دے سکنے کے خیال کو پیش کیا تھا۔ علاوہ ازیں اس بات کا احتمال بھی قوی ہے کہ روس کا کمزور پڑنا اور کہیں زیادہ اس کے سائے تلے آنا چین کی ایک سٹریٹیجک فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تاہم، موجودہ حالات میں ، میں نہیں سمجھتا کہ روس یوکرین میں مزید کچلنے اور فوجی شکست کو برداشت کر سکتا ہے۔ یہ صورتحال سٹریٹیجک لحاظ سے چین کے لیے وسیع پیمانے کے نقصان کا مفہوم رکھے گی۔ چین روس کو کمزور بنائے جانے کے بعد ا ب اس کی باری آنے کی سوجھ بوجھ کے ساتھ بعض اقدامات اٹھانے پر مجبور ہے۔ ویسے بھی اسوقت بھی امریکہ AUKUS جیسے ڈھانچوں کو قائم کرتے ہوئے جیو پولیٹیکل اعتبار سے چین کا محاصرہ کرنے کے اقدامات اٹھا رہا ہے۔ لہذا مغرب کے برخلاف امریکہ کے قائم کردہ نئے اتحاد ی نیٹ ورک کے برخلاف عوامی جمہوریہ چین کا سب سے بڑا اور با معنی اتحادی روس ہی ہو گا۔
چین آئندہ کے مہینوں میں اس معاملے میں کسی ترجیح کو اپنانے پر مجبور ہو جائیگا۔ یہ روس سے کہیں زیادہ با معنی عسکری امداد فراہم کرتے ہوئے یوکرین محاذ پر اس کے ہاتھوں کو مضبوط کرے گا یا پھر اپنے سے بڑے اتحادی کے حزیمت کا سامنا کرتے ہوئے کھیل سے باہر ہونے پر آنکھیں بند رکھتے ہوئے اپنی باری آنے کا انتظار کرے گا۔