تجزیہ 04

شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں صدر ایردوان کی پہلی بار شرکت نے عالمی سطح پر بحث کھڑی کردی، اس موضوع پر ماہر کا جائزہ

1883817
تجزیہ 04

صدر رجب طیب ایردوان کی گزشتہ ہفتے ازبیکستان کے شہر ثمر قند میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم  کے سربراہی اجلاس میں شرکت  نے ترکیہ کی خارجہ پالیسی میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ کورونا وبا کے بعد پہلے  بلمشافہ اجلاس  کا بالخصوص  روس کے یوکیرین  پر حملوں کے بعد سر انجام پانا  اور ترکیہ کی اس اجلاس میں  صدارتی سطح پر  پہلی بار شراکت کئی پہلووں سے  اہمیت کی حامل ہے۔ ترکیہ کا نیٹو کا رکن اور یورپی یونین   کا امیدوار ملک ہونا اور  اس تنطیم کے مغرب مخالف ایک ڈھانچے کے حامل ہونے  کی  بنا پر کی اس تنظیم میں ترکیہ کا وجود بھی اسے  متنازعہ بنا رہا ہے۔  صدر ایردوان  کے بیان  کہ ترکیہ اس تنظیم کا رکن بننے کا ہدف رکھتا ہے، نے بھی  اس معاملے پر بحث و مباحثہ کو مزید  اہمیت دلائی ہے۔  آیا کہ  ترکیہ شنگھائی تعاون تنظیم  کو مغرب کے بر خلاف  ایک متبادل  کی نگاہ سے  دیکھتا ہے؟  اس سوال کا صحیح معنوں میں جواب  دینا قدرے مشکل ہے۔

سیتا  سیکیورٹی ریسرچ ڈائریکٹر  پروفیسر ڈاکٹر  مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ۔۔۔

ترکیہ   کے شنگھائی تعاون تنظیم میں جگہ پانے کے کئی جواز موجود ہیں۔  ان اہم  اسباب  میں سے ایک  اس خواہش کے ایک نئی بات نہ ہونے پر مبنی ہے۔ 2019 میں ترکیہ کی جانب سے اعلان کردہ ایشیا انیشیٹو کو ترکیہ کی خارجہ پالیسی میں ایک نئی راہ کی تلاش کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جا  رہا ہے۔  مذکورہ   اقدام کی 2 اہم بنیادیں پائی جاتی ہیں۔  پہلی  بنیاد ترکیہ کے دوبارہ سے ایشیا کی جانب مائل ہونے  کے ذریعےخطے کے ممالک کے ساتھ دو طرفہ سطح پر تعلقات کو فروغ دینے پر مبنی ہے۔ اس دائرہ عمل میں ترکیہ اقتصادی اعتبار سے  خطے کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید تقویت دیتے ہوئے  ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے تجارتی  حجم  کو بڑھانے کا خواہاں ہے۔ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ صورتحال  ترکیہ کی برآمدات میں  اضافہ کرے گی اور معاشی ترقی  کو پراستحکام بنائے گی۔ ادارہ سازی کی طرف ایک قدم اٹھاتے ہوئے ترکیہ کی ریاستی تنظیم کو ایک سرکاری بین الاحکومتی تنظیم کی حیثیت دلانے کے ایک حصے کی نگاہ سے  دیکھا جانا چاہیے۔شنگھائی تعاون تنظیم کو بھی  اسی  تناظر میں  تصور کیا جانا چاہیے۔کیونکہ عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے  ایک طویل مدت سے عملی جامہ پہنائے جانے  والے سنگل بیلٹ سنگل روڈ  منصوبے کے دائرہ کار میں  ترکیہ کا ’’وسطی راہداری‘‘ میں جیو پولیٹکل لحاظ سے اس کے مرکز میں واقع ہونا  ترکیہ کے شنگھائی تعاون تنظیم کے اندر کردار کو کہیں زیادہ اہم  بناتا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم میں  جگہ پانے کے لیے  ترکیہ کی رضامندی کے موقع پر ایک اور نکتہ جس کی نشاندہی کی جانی چاہیے وہ یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں ترکیہ کا سیکیورٹی ماحول ایک جامع تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ ترکیہ اور یونان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی، امریکہ اور یورپ کی یونان کی پشت پناہی ، امریکہ کی جانب سے  یونانی قبرصی انتظامیہ کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی ہٹانے اور   یونان میں  اپنے فوجی اڈوں کو مضبوط  بنانے جیسے عوامل ترکیہ  کے  خدشات  کو طول دے  رہے ہیں ۔ دوسری طرف شام میں PKK/YPG کے ساتھ امریکہ کے تعلقات اور شام کی صورتحال، عمومی طور پر ترکیہ کی جنوبی سرحد کو ترکیہ کی قومی سلامتی کے لحاظ سے  حد درجے  اہم بناتی ہے۔ اس  نکتے  پر  مغرب کی حمایت حاصل کرنے میں صحیح معنوں میں کامیابی  حاصل نہ کرسکنا  بھی ترکیہ کو سوچ بیچار کرنے  پر مجبور کرتا ہے۔ یوکرین میں جاری جنگ ترکیہ کی بحیرہ اسود  میں سلامتی کے لیے بھی بہت اہم ہے۔آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین  کشیدگی اور جنگ کے  خطرات کو بھی مد نظر  رکھنے سے   اس  چیز کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ ترکیہ کا سلامتی  ماحول   اس وقت  کافی   فعال ہے۔ جب عراق اور مشرقی بحیرہ روم کو کشیدگی کے ان  معامات  میں شامل کیا جاتا ہے تو  ترکیہ کے شنگھائی تعاون تنظیم کے تناظر میں اس کے  رکن ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا انتہائی ضروری  بن جاتا ہے۔ بلاشبہ تنظیم کی رکنیت ترکیہ کی قومی سلامتی کے مسائل کو براہ راست حل کرنے کی بنیاد نہیں ہے۔ تاہم ترکی کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ مغرب کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے امکان کے پیش نظر بین الاقوامی سیاست میں توازن برقرار رکھے۔

ترکیہ کے شنگھائی  تعاون تنظیم کے بارے میں بیانات میں سے توجہ  طلب ایک دوسرا معاملہ  عالمی  نظام  کے تبدیلیوں سے گزرنے سے متعلق ترکیہ کی سوچ ہے۔ یہ نظریہ، جو خاص طور پر عالمی وبا کے ساتھ واضح ہو گیا ہے، اس خیال کے غلبے کا باعث بنا ہے کہ بین الاقوامی نظام میں طاقت  اب مغرب سے ایشیا کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ ترکیہ مذکورہ   طاقت  کی منتقلی  کے سلسلے میں  کہیں زیادہ  تیاری کر سکنے  کے لیے  ایشیا جیوپولیٹکس میں کردار ادا کرنے   کا خواہاں  ہے۔  یہ موجودہ  خارجہ پالیسیوں   کے معاملات اور بڑھنے والی جیو پولیٹکل اہمیت  کی بدولت   خطہ ایشیا میں  ایک موثر طاقت  بن کر ابھر سکتا  ہے،  تو  شنگھائی تعاون تنظیم   کو طاقت کا مظاہر کر سکنے کے لیے  ایک  اہم پلیٹ فارم کی  نظر سے  دیکھا جا رہا ہے۔

مذکورہ بالا  تینوں اہم نکات  یہ واضح کرتے ہیں کہ ترکیہ شنگھائی تعاون تنظیم کو مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات کے متبادل کے طور پر نہیں دیکھتا، بلکہ اسے مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات  کی  تکمیلی کے  انداز میں دیکھتا ہے۔ دوسری  جانب  ایس سی او کی پالیسیاں ترک خارجہ پالیسیوں  میں توسیع لانے کا  مفہوم رکھتی ہیں۔ مزید یہ کہ ایس سی او نہ تو یورپی یونین جیسی سیاسی و اقتصادی تنظیم ہے اور نہ ہی نیٹو جیسی دفاعی تنظیم ہے۔ اس وجہ سے یہ نقطہ نظر کہ ترکی نے اپنا محور شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے مغرب سے ہٹا دیا ہے  درست نہیں ہے۔



متعللقہ خبریں