تجزیہ 44

سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو رکنیت کا معاملہ اور ترکی کی حق بجانب مزاحمت

1851757
تجزیہ 44

29 جون کو میڈرڈ میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس  میں نیٹو نے نئی حکمت عملی نظریے کی منظوری دی۔  اس سے پیشتر کے سٹریٹیجک  نظریے  کے مطابق سیکیورٹی ماحول میں  رونما ہونے والی  اہم سطح کی تبدیلیوں نے نیٹو کے نئے حکمت عملی  نظریے میں  ریڈیکل سطح کی تبدیلیاں لائی ہیں۔ اس دائرہ کار میں  2010 دستاویز میں امن کے ماحول میں  ہونے کا ذکر کیے جانے والے یورو۔ اٹلانٹک علاقے نے موجودہ  ایام میں روس کی جارحیت کی بنا پر امن کے ماحول کو کھو دیا ہے، جس کے بعد میثاق کے  کسی رکن ملک  کے مستقبل میں حملے کا ہدف بن سکنے کے احتمال کو نظر انداز نہ کر سکنے کا  اظہار کیا جا رہا ہے۔

سیتا سیکیورٹی  ریسرچ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا  مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔

گزشتہ دستاویز میں روس کی شراکت داری میں جوہری  اسلحہ سے پاک ہونے جیسے معاملات ایک اہم حیثیت کو تشکیل دیتے ہیں تو نئی  دستاویز میں  مذکورہ کوششیں  ایک اہم سطح پر روس کے موقف کے باعث زوال پذیری کا شکار ہوئی ہیں اور  اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ سٹریٹیجک استحکام  منفی طور پر متاثر ہوا ہے۔  دوسری جانب  گزشتہ دستاویز میں  جگہ نہ پائے جانے کے باوجود  ایران اور شمالی کوریا جوہری اور بالسٹک پروگراموں  کو فروغ دینے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں  ، کہا جاتا ہے کہ شام ، شمالی کوریا اور روس کی جانب سے غیر سرکاری   طور پر  مسلح اداکاروں کے  ہمراہ کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں۔

نئے  سٹریٹیجک کانسیپٹ  میں نیٹو  کے بنیادی مشن کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس کی رو سے میثاق کے تین بنیادی  مشنز جاری رہیں گے۔ یہ  باز رکھنے اور دفاع کرنے، بحران کی راہ میں حائل ہونے اور  باہمی  اشتراک   سیکیورٹی  پر مبنی ہیں۔  لیکن اس کے باوجود ان   کے ساتھ ساتھ سماجی لچکداری کی اہمیت    میں قدرے  اضافہ ہونے کا ذکر کیا جانا لازمی  ہے۔ کیونکہ  کانسیپٹ علاقے میں  لچکداری کے تین مرکزی   فرائض کو سر انجام د ے سکنے کے لیے  اس چیز کے ’کلیدی‘ اہمیت کے حامل ہونے کا اظہار کیا جاتا ہے۔

یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے، میثاق کی  نئی دستاویز کے پانچویں  آرٹیکل  میں اجتماعی دفاع کے دائرہ کار میں دفاع اورقوت مزاحمت کی صلاحیتوں کو سنجیدگی سے مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

دوسری جانب اس مفاہمت پر عمل درآمد جاری ہے کہ   جب تک  جوہری اسلحہ کا وجود جاری رہے گا تب تک  نیٹو بھی ایک  جوہری  اتحاد کی شکل  میں اپنے وجود کو جاری رکھے گا ۔ مزید برآں نیٹو کے جوہری ہتھیاروں کا مقصد امن کا تحفظ اور جارحیت اور دھمکیوں کی کارروائیوں کو  روکنے پر  زور دیتے ہوئے کہا  گیا  ہےکہ نیٹو کسی بھی مخالف اداکار کے خلاف قابل اعتمادقوت ِ مزاحمت  کو یقینی بنانے کی صلاحیت اور ارادے کا مالک  ہے۔

اس چیز پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ  ترقی یافتہ اور تباہ کن ٹیکنالوجی  فائدے کے ساتھ ساتھ رسک  بھی رکھتی ہے ، اس ٹیکنالوجی نے جھڑپوں کی نوعیت کو بدل کر رکھ دیا ہے ، یہ کہیں زیادہ سٹریٹیجک اہمیت کی  حامل ہے او ر اس نے عالمی سطح  پر رقابت   کے بنیادی    معاملات کی ماہیت اختیار کر لی ہے ۔  اس مفہوم میں  ٹیکنالوجی کی بالا دستی کے جنگی میدان   میں سبقت لینے کے عمل کو کہیں زیادہ  متاثر کیا ہے ۔ اس لحاظ سے  خطرات کے ماحول کے بھی بتدریج کہیں زیادہ ہائبرڈ  ماہیت اختیار  کرنے کی بنا  پر  لچکداری کی اہمیت پرزور دیا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں کہا گیا ہے کہ نیٹو  ریاستی سطح پر  اور اجتماعی پیمانے پر اپنی لچک اور تکنیکی برتری کو مضبوط کرے گا۔ دوسری طرف، یہ کہا گیا ہے کہ تکنیکی جہت میں خلائی اور سائبر اسپیس کے شعبہ جات  تک بلا تعطل رسائی موثر دفاع اور مزاحمت کے لیے ضروری ہے۔ اس لحاظ سے یہ  بات قابل ذکر ہے کہ سائبر اسپیس اور خلائی شعبہ جات میں مداخلت  "مسلح حملے کی سطح تک پہنچ سکتی ہے" جو کہ  اتحاد کے آرٹیکل پانچ پر عمل درآمد کا ب موجب  بن سکتی  ہے۔

نیٹو کے نئے سٹریٹیجک کانسیپٹ میں روس  کا حوالہ دیے جانے والے کردار میں  ریڈیکل نوعیت کی  تبدیلی آئی ہے۔ روس کی موجودہ  دشمنانی پالیسیوں اور کاروائیوں کی بنا پر   اسے گزشتہ دستاویز  کی طرح   اس  میں بھی  ایک شراکت دار کی  نظر سے نہیں دیکھا جائیگا۔ نیا  نظریہ  روس کو    اتحادیوں کی سلامتی اور یورو۔ اٹلانٹک  علاقے کے امن و استحکام کے لیے سنگین   اور براہ راست خطرے  کے طور پر بیان کرتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ  اس تناظر میں  چین کے لیے بھی  واضح اور ایک سخت گیر زبان  استعمال کی گئی ہے چونکہ    کہا جاتا ہے کہ  چین ،  بحری، خلائی اور سائبر شعبوں سمیت   اصولوں پر مبنی  بین الاقوامی  نظام کو ’تباہ کرنے‘ کے لیے  بر سرِ پیکار ہے۔



متعللقہ خبریں