تجزیہ 14

متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کاروائیاں اور کے ممکنہ اثرات پر ایک جائزہ

1742684
تجزیہ 14

متحدہ عرب امارات  کی عملی طور پر قیادت کرنے والے محمد بن زیدد الا نہیان  کے دورہ ترکی کے بعد متعدد مبصرین نے ترکی۔خلیج تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے بحث چھیڑی  ہے۔زید کا دورہ ترکی سال 2011 کے بعد سے ابتک دو مختلف کیمپوں میں پھنس جانے والے اور سخت کشمکش ہونے والے دونوں  ممالک کے باہمی تعلقات کے موجودہ  حالات کو سمجھنے کے اعتبار سے کافی اہم ہے۔اس دورے کے  ساتھ ساتھ طرفین کے درمیان 10 ارب ڈالر کی تجارت و سرمایہ کاری معاہدوں   کا قیام  باہمی تعلقات  کے مستقبل کے اعتبار سے بھی  بعض  اشارے دیتا ہے۔  سیاسی طور پر  گزشتہ دس برسوں میں دو طرفہ  سخت گیر پالیسیو  ں پر عمل پیرا ہونے والے دونوں  ممالک کے اقتصادی تعلقات اس  مؤقف سے  متاثر نہیں ہوئے تو بھی یہ دورہ علاقے کے مستقبل کے  لحاظ سے اہمیت  کا حامل ہے۔

سیتا سلامتی تحقیقات کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش  کا جائزہ۔۔۔

دونوں ممالک نے کچھ مدت سے جاری  قربت کے معاملے میں دو طرفہ اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ تاہم ، حالات کے معمول کی سطح پر آنے کے اسقدر سرعت سے ہونے  کی توقع نہیں کی جاتی تھی۔ اس قربت کے بعد  دونوں طرفین کے  لیے بعض اسباب پائے جاتے ہیں۔ یہ دورہ ہر چیز سے قبل علاقائی و عالمی تبدیلیوں  کا ایک نتیجہ ہے۔ امریکی بائڈن انتظامیہ کی جانب سے  مشرق وسطی اور خلیج  کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں پر  نظر ثانی  کرنے کے مؤقف کو پیش کرنے نے متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ممالک  کو خدشات سے دو چار کیا ہے۔  بائڈن نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد متحدہ عرب امارات  اور سعودی عرب  کو پیش کردہ ’’اوپن چیک‘‘ پالیسیوں سے پیچھے قدم ہٹا لیا۔ علاوہ ازیں  بائڈن نے جوہری پالیسیوں  کی بنا پر ٹرمپ کے دور میں ایران پر عائد ’’مکمل دباؤ‘‘ پالیسیوں سے بھی کنارہ کشی اختیار کی جس  نے ایران کے برخلاف کمزور پڑنے والے خلیجی ممالک  کو بھی  نئی پالیسیوں کو اپنانے پر مجبور کیا۔

ردِ عمل کے  طور پر علاقائی ممالک نے  خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ درپیش تناؤ اور کشیدگی میں گراوٹ لانے کا فیصلہ کیا۔ مزید برآں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات  کے مابین کچھ مدت سے جاری اور یمن کے معاملے پر  کہیں زیادہ واضح طور پر منظر عام پر آنے والے تضادات  نے  ان دونوں خلیجی ممالک کے مابین ہم آہنگی میں بھی بگاڑ لایا تھا۔ خارجہ پالیسیوں میں حقیقت پسند ہونے والے متحدہ عرب امارات نے اس صورتحال کو ترکی کے ساتھ قربت قائم کرنے کے لیے ایک موقع کی نگاہ سے دیکھا اور  خطے کے دیگر ممالک سے قبل  ہی  انقرہ کے ساتھ  تناؤ کی پالیسیوں سے بازآتے ہوئے حالات کو  معمول پر لانے   کے لیے  ایک بڑا قدم اٹھایا۔  خطے میں  حالات کی بحالی  کا عمل قطر کے محاصرے کی پالیسیوں کے خاتمے کی بدولت اس سے قبل ہی شروع ہو چکا تھا۔

ترکی کے لیے  بھی  معمول پر لانے  کے  ذی فہم   حقائق پائے جاتے ہیں ، لہذا اس  چیز کو یکطرفہ   سلسلے کے طور پر  تصور نہیں کیا جانا چاہیے۔ ترکی بھی کچھ مدت سے  تنازعات  ہونے والے  خطے کے ممالک کے ساتھ حالات کو ڈگر پر لانے کا متلاشی  ہے۔  اس ضمن میں مصر، اسرائیل اور سعودی عرب کے ساتھ  نمایاں  سطح پر پیش  رفت ہوئی ہے تو بھی  ابتک کوئی قطعی  نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکا گیا۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ معمولات  کی بحالی  فیصلے  سے بھی کہیں زیادہ سرعت سے سر انجام پائی اور ترکی نے اس معاملے میں ’’کھلی ڈپلومیسی‘‘ کی راہ میں کوئی رکاوٹ  کھڑی کرنے کو ترجیح نہیں دی۔ کیونکہ  انقرہ  حالیہ ایام میں  اس کے برخلاف علاقے میں قائم ہونے والے بلاک کو توڑنے کی جستجو میں ہے۔  اس  عمل کو انقرہ کی موجودہ   پوزیشن میں کچھ زیادہ مراعات  دیے بغیر  یونان اور جنوبی قبرصی کے اطراف قائم ہونے والے اتحاد کو منتشر کرنے   کی کوششوں کے ایک جزو کی  نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ   رونما ہونے والی قربت انہی حالات میں سر انجام پائی ہے۔  اب اصل مسئلہ ان معمولات کے قربت  کی وجہ ہونے یا نہ ہونے  کا جواب تلاش کرنا ہے۔ بلا شبہہ متحدہ عرب امارات اور ترکی،  لیبیا، مصر اور شام جیسے معاملات  میں  ایک دوسرے سے مختلف سیاسی پالیسیوں پر  عمل پیرا ہیں۔  تا ہم متحدہ عرب امارات  کے ساتھ حالات کا معمول پر آنا  ترکی کے مصر اور سعودی عرب کے ساتھ قریبی روابط  کے قیام میں بارآور ثابت ہو سکتا ہے ، ایسا ہونے سے علاقائی کشیدگی  ایک ایک کرکے دور ہو سکتی ہے۔  ان تمام عوامل کے وقوع پذیر ہونے کو کم ازکم 2022 کی پہلی سہ ماہی تک انتظار کرنا مقصود ہو گا۔



متعللقہ خبریں