تجزیہ 86

امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان کے ملک پر قبضے کے بارے میں تجزیہ

1694596
تجزیہ 86

بیس سالہ قبضے کے بعد امریکی فوج افغانستان سے  انخلا کر گئی ہے تو طالبان نے   غیر متوقع  رفتار سے پورے افغانستان کو اپنے کنٹرول میں لینے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔  امریکہ کی جانب سے  سینکڑوں ارب  ڈالر خرچ کرتے ہوئے  تربیت دیتے ہوئے مسلح کی گئی افغان فوج  تقریباً بالکل مزاحمت نہ کرتے  ہوئے منتشر ہو گئی ہے  تو  کابل ہوائی اڈے پر رونما  ہونے والے واقعات   اس ملک پر قبضے کے ماضی اور انسانیت کے نام پر باعثِ شرم ہیں۔

سیتا خارجہ پالیسی تحقیق دان جان اجون کا اس موضوع پر جائزہ ۔۔۔

امریکہ نے نائن ۔ الیون حملوں  کے بعد سخت گیر طریقے سے افغانستان پر قبضہ جما لیا تھا تو   ممکنہ طور پر اس نے  20 برسوں جیسے طویل عرصے تک اس ملک میں پھنس کر رہ جانے اور بعد ازاں   ملک کو دوبارہ سے  طالبانوں کےحوالے کرنے پر مجبور ہونے کا  نہ سوچا تھا۔ جیسا کہ بائڈن نے زور دیا ہے کہ امریکہ کو اس جنگ کے دوران ہزاروں فوجیوں سمیت تین ٹریلین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ نہ ختم ہونے والی اور ختم ہونے کا نام بھی  نہ لینے والی افغان جنگ   کے خلاف  امریکی  رائے عامہ میں  شدید ردعمل  کا مظاہرہ   ہو رہا تھا تو ٹرمپ کے دور میں دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے   اس ملک سے امریکی فوجوں کے انخلا کی تاریخ کا تعین  ہوا اور بائڈن انتظامیہ نے اس سلسلے کو سرعت دی۔  تا ہم  امریکہ میں کوئی بھی شخص یہ اندازہ نہ لگا سکا کہ   امریکی فوجوں کے انخلا کے ساتھ  ہی طالبان کے چد ہفتوں  جیسی قلیل مدت میں ملک پر قبضہ جما لینے ، 3 لاکھ نفری پر مشتمل    امریکی تربیت یافتہ  افغان فوج   تقریبا ً نہ ہونے کے برابر مزاحمت کیے بغیر ہی منتشر ہو جائیگی۔ ایسا ہے کہ ابھی امریکہ کے مکمل طور پر انخلا  سے قبل ہی طالبان جنگجووں نے  دیگر بڑے شہروں کے  بعد کابل کو بھی اپنے قبضے  میں لے لیا۔  ہزاروں کی تعداد میں امریکی شہری  کابل میں پھنس کر رہ گئے تو  امریکہ کی طر ف سے اس سے قبل  ملک سے نکالنے کا عندیہ دیے گئے   ہزاروں کی تعداد میں ترجمانوں اور دیگر شعبہ جات میں  اس کے لیے خدمات ادا کرنے والے  افغانیوں کو  طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ کابل ہوائی اڈے پر  رونما ہونے والے واقعات ،   رن وے پر کھڑے امریکی طیاروں پر سوار ہونے   کی کوشش کرنے والے  لیکن   پیچھے دھکیلے جانے والے افغانی  طیاروں کے پہیوں سے لپٹ گئے، فضا سے  زمین پر جا گرنے والے شہریوں کے  مناظر  نے امریکی حزیمت  کا ایک بار پھر  واضح طور پر مظاہرہ کیا ہے۔

اب امریکی انتظامیہ طالبان کے ساتھ معاہدہ  طے کرتے ہوئے اپنے شہریوں کو کابل سے نکالنے  کے درپے ہے۔  اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس نے طالبان کی فتح   کا خیر مقدم کیا ہے۔  طالبان اب کی بار پرانی انتہا پسندی  میں ترمیم کرتے ہوئے  زیادہ وسیع سطح  کی اور دیگر حلقوں سے بغلگیر ہونے  کی  پوزیشن پر ہیں۔  یا کم  ازکم یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔  ان کے آئندہ کے ایام میں اٹھائے جانے والے اقدامات اس اعتبار سے  حالات کا تعین کریں  گے  تو   اس مرحلے پر طالبان قیادت کے ماضی سے سبق سیکھنے اور  دنیا بھر میں تنہا رہنے والے افغانستان  کے حق میں نہ ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔



متعللقہ خبریں