اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب19

دنیا کا پہلا شفا خانہ" اسکلیپیون"

1670886
اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب19

سلطنت برگامہ کے صدر مقام پرگامون  رومی سلطنت  کا مشرقی مرکز تھا۔  متعدد ادوار میں بےشمار تہذیبوں کا محور رہا۔اصولوں  اور ضوابط کے حوالے سے بھی دیگر  تمدنی شہروں میں نمایاں مقام  کا حامل رہا۔پارشومان نے پہلی بار پرگامون کو دریافت کیا۔ دو ہزار  جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب میں ایشیا  کا پہلا اور بڑا کتب خانہ اسی شہر میں تھا۔پرگامون  تیز دھار پانی کو پائپوں کے ذریعے رسائی ممکن بنانےکا بھی  مرکزرہا۔ مجسموں سے اپنے احساسات کا اظہار  بھی اسی شہر سے پیدا ہوا۔
 طرز معماری،فنون لطیفہ،شہری منصوبہ بندی اور طبی موضوعات پر بھی یہ شہر تہذیبوں کارہنما رہا  لیکن دنیا کے پہلے اسپتال کا قیام بھی اس شہر کو دیگر سے منفرد بناتا ہے۔

 طبی دیوتا ااسکلیوپوس طبابت کے حوالے سے کافی معتبر ہستی مانا جاتا ہےجس کی بدولت  اموات میں کمی واقع ہونے لگی ۔اس دیوتاکے نام پر اسکلیوپیون  قوم نے  طب خانے اور شفا خانے قائم کیے۔ہیلینک دور  سے رومی سلطنت تک ان کا استعمال موجود رہا جن کی تعداد دو ہزار کے قریب تھی۔شعبہ طب کی علامت بنا جس میں ایک سانپ عصا پر لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
 اسکلولی پیوس دورجدید کے شفا خانوں سے مختلف تھا جہاں مریضوں کا معالجین  مشاہدہ کرتےہوئے علاج کیا  کرتے تھے۔ لیکن دور جدید اور ان پرانے وقتوں کے شفا خانوں کا طریقہ علاج  کیسےمختلف تھا آئیے  جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
 متعدد امراض  کے  علاج کے باوجود اس شفا خانے میں  ہر مریض  داخل نہیں ہوتا تھا۔ موذی امراض اور حاملہ خواتین کا داخلہ ممنوع تھا۔ ایک روایت کے مطابق،  ان شفاخانوں کے باہر ایک عبارت درج ہوا کرتی تھی جس پر موت کا داخلہ منع ہے درج ہوا کرتا تھا۔ مریض شفا خانے میں ایک کلومیٹر چلتے ہوئے ویا تیکتا یعنی مقدس گزر گاہ  کے راستے  داخلی احاطے تک پہنچتے تھے۔ اس احاطے میں شفا خانے میں داخلے کے امیدوار مریضوں  کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا تھا۔ لا علاج امراض میں مبتلا افراد  کو یہاں داخل نہیں کیا جاتا تھا جبکہ باقی ماندہ افراد کو صحت یابی پر یقین رکھتے ہوئے یہاں مقیم کیا جاتا تھا۔ مغربی اناطولیہ کے اہم مرکز کے طور پر برگامہ اسکلیپیون شفایابی کا بہترین مرکز تھا۔
 ان طبی مراکز میں مریضوں کو پہلے مقدس تالابوں میں غسل دیا جاتا تھا اور سفید لباس زیب تن کرواتےہوئے قربانیاں دی جا تی تھیں۔ شفا یاب اور مقدس تالابوں کے قریب خواب گاہیں ہوتی تھیں۔اسکلی پیون میں خوابوں کی تکنیک  سے علاج  کیا جاتا تھا۔ خوابگاہوں میں مریض اپنے خواب معالجین کو بتانے کے پابند ہوتے تھے۔ ان خوابوں کا احوال بعض اوقات واضح مگر بعض دفعہ کافی پیچیدہ ہوتا تھا۔ راہب ان خوابوں کی بنیاد پر شفا کی تلاش کرتے ہوئے علاج شروع کرتے تھے کیونکہ قدیم دور میں یہ اعتقاد تھا کہ خواب  ماضی اور مستقبل کی خبر دیتے ہیں۔

 اسکلی پیون کے معبد میں سر درد،بینائی،مردانہ کمزوری ، مرگی،اور فالج جیسے متعدد امراض کا علاج کیا جاتا تھا۔ ٘مختلف امراض  کے لیے مختلف طریقہ علاج تھے۔ علاج کےبعض طریقے ہمیں آریستیدس  کے حوالے سے ملتے ہیں جو کہ کافی بار اسکلی پیون گیا اور اس نے  وہاں خوابوں ،طریقہ علاج اور ان کی مدت کا مشاہدہ اپنی کتاب مقدس اقوال میں  قلم بند کیا ہے۔ اس کی کتاب کے تحت ، اس طریقہ علاج کا اہم مرکز راہب معالجین کی جانب سے دیوتاوں کی تلقین  تھا۔ مریضوں کو صحتیاب  ہونے پر ان راہبوں کا یقین کافی اہم تصور کیا جاتا تھا۔ امراض کی شفا یابی میں  فاقہ کشی ،شفا یاب پانی، نباتاتی روغنیات اور مرہموں  سے مالش کا طریقہ کار شمال ہوا کرتا تھا۔ بسا اوقات ہلکی ورزشوں  سے زمین ر ننگے پیروں چہل قدمی اور مقدس احاطے میں دوڑنا جسمانی طریقہ علاج میں مشہور تھا۔طریقہ علاج کا درجہ اور  ان کی  بیماریوں کی شدت  کا تعین بھی یہی کیا جاتا تھا۔
علاوہ ازیں،  شمسی و آبی تھراپی بھی اس شفا خانے کا رواج تھاجہاں  مقدس تالاب  بھی موجود تھے سائیکو تھراپی کا حامل طریقہ علاج کافی قوت بخش تسلیم کیا جاتا تھا۔مقدس پانیوں میں نہانا،مقدس نلکے سے پانی پینا ایک ضروری عمل تھا ۔جلدی امراض کی شفا یابی میں بھی یہ مرکز شہرت کا حامل رہا۔شفایاب پانی کے حامل مقامات کو اسپا کہا جاتا ہے جو کہ لاطینی زبان میں سالوس پر اکوا یعنی پانی سےدستیاب شفا یابی  کے معنوں میں آتا ہے۔

اسکلی پیون  میں آبی تھراپی  کے علاوہ شمسی تھراپی بھی اہمیت کی حامل تھی کیونکہ سورج کی روشنی انسان کے لیے مفیدمانی جاتی تھی اس میںسورج کے دیوتا اپولون کو طبی دیوتا اسکلی پیون کا باپ ہونے کا بھی سبب مانا جاتا تھا۔مریضوں کے دھوپ سینکنے کا بھی رواج یہاں عام تھا۔
موسیقی ،مطالعہ اور تھیٹر بھی علاج کا ایک  حصہ رہا جہاں مریضوں کی حوصلہ افزائی کے لیے میلوں کا انعقاد کیا جاتا تھا جہاں شاعری و موسیقی کے مقابلے ہوتے تھے۔
 برگامہ اسکلی پیون میں کی گئی کھدائی کے نتیجےمیںمریضوں  کے اس شفا خانے سے متعلق نیک خواہشات پر مبنی پیغامات  کے کتبے بھی ملے ہیں۔یہ کتبے ایسے مقامات پر  ٹانگے جاتے تھے جہاں انہیں دیگر انسان باآسانی دیکھ سکتے تھے جو کہ دیگر آنے والے مریضوں کو اس شفا خانے کے بہتیرن ہونے  کا ثبوت بھی دیتے تھے۔کھدائی کے دوران یہاں سے سوئیاں،چاقو،چمٹیاں اور دیگر طبی آلات بھی ملے ہیں البتہ یہاں بلا ضرورت جراحی کا طریقہ رواج میں نہیں ہوتا تھا۔

ہیلینک، رومی اور عثمانی ادوار میں اپنی کاوشوں کی بدولت یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں برگامہ کا قدیم شہر بھی شامل ہے۔اس شہر میں  طب اور سائیکو تھراہنی کے طریقہ  علاج کے نتیجے میں مریضوں کو شفا نصیب ہوتی تھی۔یہ  شہر  ساڑھے تین ہزار افراد کی گنجائش کے حامل تھیٹر،کتب خانے،مقدس مقامات صدیوں تک مختلف علاقوں سے آنے والے مریضوں کےلیے وسیلہ بنا۔دور حاضر میں انسان  شفایابی کی تلاش میں   مختلف طریقوں کو اپنانے کی لگن میں مصروف ہےجبکہ اس قسم کے طریقوں کو برگامہ اسکلی پیون کے شفا خانے میں ہزاروں سال سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔



متعللقہ خبریں