اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب04

دنیا کا پہلا تحریری" کادیش معاہدہ"

1606919
اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب04

ہمارے آبا و اجداد  نے پہلی بار کب جنگ لڑی؟آنتوروپولوگ اور محققین  اس بارے میں تاحال جواب تلاش کر رہےہیں۔اس بارے میں ویسے بھی شواہد کی کمی ہ۔کہا جاتا ہے کہ انسان نے آباد کاری کے بعد سے ہی  جنگ  کا بھی آغاز کر دیا تھا۔ قدیم کھدائیوں سے جو بھی اسلحہ اور آلات سمیت زخمی انسانی ہڈیاں ملی ہیں یہ سب اس بات کی غماز ہیں کہ  نیو لیٹیک دور جنگ و جدل کا دور بھی تھا لیکن اس دور میں  فوج کا قیام آبادی میں کمی کی وجہ سے ممکن نہیں تھا۔
 انسان نے جنگ  کی ابتدا زرخیز  زمینوں کے تحفظ یا ان پر  قبضے کے لیے اور بعد میں دیگر وسائل پر حاکمیت قائم کرنے   اور اپنے علاقوں کو وسعت دینےکے لیے کی ۔ ابتدائی ادوار میں بعض جنگیں ایسی ہوئی جنہوں نے تاریخ رقم کی یا اس کا رخ  تبدیل کر دیا۔آج ہم آپ کو کادیش کی  جنگ  اور اس کے تحت ہوئےامن   معاہدےکے بارے میں بتائیں گے۔
کادیش ایک اہم تجارتی مرکز تھا جو کہ اپنی زرخیزی اور دیگر معدنی وسائل کی بدولت ہمیشہ سے لوگوں کی توجہ کا باعث بنا رہا۔ کادیش  پر مصریوں اور حطیطیوں کا قبضہ رہا جن کے درمیان عرصہ دراز سے طاقت کا زور بھی پروان چڑھتا  رہا۔حطیطی قوم اس سلسلے میں مضبوط ہوتی گئی اور انہوں نے تجارتی لحاظ سے اپنا نام منوانا جاری رکھا جبکہ مصریوں کا ہدف تھا کہ وہ اناطولیہ کے معدنی وسائل پر اپنا تسلط برقرار رکھیں۔ان مقاصد کے نتیجے میں دونوں اقوام کے درمیان جنگ ناگزیر تھی  اور یہ دونوں کادیش کے مقام پر ایک  دوسرے سےٹکرائے۔اس مقام پر  تاریخی کی ان دو بڑی افواج کے درمیان لڑائی ہوئی جس کی جیت کا دونوں نے دعوی کیا۔صدیوں بعد ان دونوں اقوام نے اپنی جنگی حکمت عملی،اسلحہ اور خفیہ معلومات کے شعبوں کو ترقی دی ۔کادیش کی جنگ کو فوجی تربیتی اداروں میں بطور نصاب شامل کیا گیا ۔ اس جنگ کی اہمیت اپنی جگہ مگر اس کی حقیقی اہمیت امن معاہدہ ہے جسے کادیش معاہدہ کہا جاتا ہے۔
یہ تاریخ کا پہلا تحریری معاہدہ ہے  جس کی بنیاد مساوات پر مبنی تھی۔اس معاہدے کی رو سے متحارب دونوں ریاستوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف محاذ  آرائی کی پابندی کرنے سمیت جنگی قیدیوں کی رہائیجیسے نکات شامل کیے گئے تھے اور اس بات کا وعدہ کیا گیاتحا اگر دونوں میں سے کسی ایک ریاست پر بیرونی حملہ ہوا تو دوسری ریاست اس کا دفاع کرے گی ۔
اس معاہدے کو کندہ کاری کے ذریعے چاندی کی  پتریوں پر اس دور کی سفارتی زبان اکادی میں  لکھا گیا تھا،بعد میں اسے حطیطی اور مصری زبانوں میں بدلا گیا،اس معاہدے کا اصل متن گمشدہ ہے مگر اس کی نقل مصر کے معبد  کی دیواروں پر آج بھی موجود نظر آتی ہے۔اس کی دیگر نقل حطیطیوں کے صدر مقام حطو طوشہ یعنی ضلع چوروم کے قصبے بوعاز کوئے میں سن انیس سو چھ میں کی گئی کھدائی کے دوران سامنے آئی تھی۔یہ دونوں نقل یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں جن میں سے ایک استنبول کے تاریخی عجائب خانے میں نمائش کےلیے رکھی گئی ہے۔کادیش  معاہدہ  دور حاضر میں  عالمی امن معاہدوں  اور جدیدی سفارتی کوششوں میں بطور اعانت مد نظر رکھا جاتا ہےجس کی ایک نقل نیو یارک میں اقوام متحدہ کے مرکزی دفتر  کے داخلی دروازے پر بھی کندہ ہے۔

اپنے وقت کی دو  اہم عسکری و سیاسی  ریاستوں حطیطی اور مصری اقوام کے درمیان طے شدہ یہ معاہدہ تاریخ کا پہلاتحریری  متن ہونے کے ساتھ ساتھ پہلی خاتونی مہر کی ایجاد کا بھی وسیلہ بنا  کیونکہ حطیطی فرماں روا کی مہر کے ساتھ اس کی ملکہ کی بھی مہر یہاں ثبت ہوتی تھی۔یہ ملکہ پودو ہیپہ کی  انگوٹھی پر نصب مہر تھی جسے تارسوس  سے کھدائی کے نتیجے میں نکالا گیا تھا  اور جو ادانہ کے عجائب خانے میں موجود ہے۔

ملکہ پودو ہیپہ حطیطی سلطنت کی ایک اہم رہنما رہی ہیں  جن کے سفار تی خطوط ان کی اعلی سیاسی بصیرت کے ترجمان ہیں اور جن کی وجہ سے دشمنی کے بجائے ریاستیں آپس میں بردارنہ تعلقات قائم رکھتی تھیں۔

 حطیطیوں کی تہذیب اناطولیہ میں پانچ ہزار سال پرمحیط ہے جس کا شمار اہم  عالمی تہذیبوں میں ہوتاہے۔حطیطی ریاست ،یورپ  اور مشرق وسطی کی میتھولوجی،دینی،لسانی،سیاسی اور تجارتی  اثرات میں نمایاں مقام رکھتی تھی جہاں قانونی بالادستی کو بھی مقام حاصل رہا۔ حطیطیوں کے مشاغل میں  معدن سازی میں  مہارت حاصل تھی جو کہ آہنی آلات  و اسلحہ کی تیاری میں شہرت  رکھتے تھے جس کی وجہ سے  اناطولیہ اور بحیرہ روم میں ان کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔حطیطی قوم حقوق نسواں کی بھی علمبردار رہی جبکہ ان کے ادوار میں شہروں کی آباد کاریاں وجود میں  آئیں اور یادگارہیں بنوائی گئیں۔
 حطیطی تہذیب  کے ریاستی قوانین بھی اہمیت کے حامل رہے جن میں پارلیمانی نظام بھی شامل تھا۔حطیطیوں نے بابیل سلطنت کے شاہ حامو ربی کے قصاص  کے بجائے ہرجانے  کا قانون  رائج کیا جو کہ آج بھی ساڑھے تین ہزار گزرنے کے باوجود موجودہ قوانین میں  شامل ہے۔
 حطیطیوں نے  حطو طوشہ میں پانکو یا پانکوس کے نام سے مجلس قائم کی تھی جس کے تحت جمہوری نظام کا دور دورہ ہوا۔پانکو کے معنی  شاہی مجلس کے ہیں جہاں شاہ  وقت کی مشاورت کا شعبہ قائم تھا۔ ریاست کو یہاں کے شاہی خاندان  کی منتخب شدہ شخصیت چلاتی تھی  مگر اس کے باوجود  اس مجلس  کے فیصلے غیر جانبدار ہوتے تھے اور جہاں تمام ارکان مساوی حقوق کے پابند بنائے جاتے تھے ،انہیں اظہار رائے کا برملا حق ملتا تھا اور ان کی  قوت فیصلہ مقدم مانی جاتی تھی۔ یہی نظام بعد میں برطانوی شاہی خاندان نے اپناتےہوئے اسے میگنا کارٹا کا نام دیا ،جس کی پیروی  اسپین،ہالینڈ،جاپان اور دیگر ممالک نے بھی کی جنہیں اب پارلیمانی شاہی نظام کہا جاتا ہے۔

ثقافتی،عسکری اور تجارتی لحاظ سے اپنے ادوار کی قوی حطیطی اور مصری اقوام کے درمیان   بڑی جنگوں کے بعد طے شدہ پہلے تحریری معاہدے یعنی کادیش امن معاہدے  کا ذکر آج ہم نے کیا   جسکی تیاری اناطولیہ کی حطیطی تہذیب کی مرہو منت رہی تھی۔

 



متعللقہ خبریں