تجزیہ 58

امریکی نئی انتطامیہ کی خارجہ پالیسی ٹیم اور ترکی سے متعلق اس کے ممکنہ تعلقات ماہر کے قلم سے

1578077
تجزیہ 58

سیتا سیکیورٹی تحقیقاتی امور کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا  امریکی صدر جو بائڈن کے عہدِ صدارت میں ترک ۔امریکی تعلقات کے معاملے پر  جائزہ  ۔۔

 امریکی تاریخ کی اعلی ترین پائے کی کابینہ کی تشکیل کے ہدف کے ساتھ اپنے عہدے کو سنبھالنے والے بائڈ ن نے ٹرمپ انتظامیہ سے قدرے مختلف  ایک دور کا سامنا ہونے کا ہم سب کو مشاہدہ کرایا ہے۔ علامتی سطح پر اور عملی طور پر ابتدائی امور  کے اعتبار سے جائزہ لینے سے بائڈن کے ٹرمپ انتظامیہ  کے بالکل متضاد انتظامیہ مفاہمت کے حامل ہونے کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔خاصکر  کابینہ کے انتخاب میں اس صورتحال کا واضح طور پر پتہ چلتا ہے۔ سفید فام، مردوں اور پروٹسٹنٹ شخصیات کے اکثریت میں  ہونےو الی کابینہ نے موجودہ اسٹیبلشمنٹ  کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے اپنے امور کو سنبھالا ہے۔ اس سے قبل متعدد اداروں کی طاقت کو کمزور بنانے والی اعلی سطحی تعیناتیوں  میں مشکلات کا سامنا کرنے والی  اور ایک ہی وزارت  کے عہدے پر  متعدد وزرا  کے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہوتے ہوئے خاص طور پر خارجہ پالیسی معاملات میں عمل درآمد کے معاملے میں نمایاں کامیابیاں حاصل نہ کرسکنے والی ٹرمپ انتظامیہ موجود تھی۔

بائڈن نے  پرانی اسٹبلشمنٹ کو توڑنے سے ہٹ کر کہیں زیادہ دور رس اور ڈیموکریٹک وعدوں کو پورا کرنے والی کابینہ قائم کرتے ہوئے  سرعت سے نئے منصوبوں کی داغ بیل ڈالی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کئی ایک سیاسی تعیناتیاں نہ کرتے ہوئے اداروں کو لاغر بنانے پر  فخر محسوس کیا تھا تو بائڈن کی جانب سے ایک ہزار سے زائد منتظمین کی تعیناتی کو محض10 دنوں میں سر انجام دیا جانا  ایک اہم اشارے کی ماہیت رکھتا ہے۔ یہ تیز رفتار پیش رفت بائڈن انتظامیہ کے اس معاملے کو سنجیدہ لینے کا مظہر ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ میڈیا کی حمایت کو بھی حاصل کرنے والے بائڈن کے دورِ صدارت کے پہلے ایک سو دن سکون و آرام سے گزریں گے۔

بائڈن کی خارجہ پالیسی ٹیم کو   متعدد علاقائی و عالمی معاملات  کو بالائے طاق رکھنے سے انتہائی اہمیت حاصل ہے۔  خاصکر وزیر ِ خارجہ  بلنکن  کا طویل عرصے سے بائڈن کی ٹیم  میں موجودگی، قومی سلامتی مشیر جیک  سولیوان کا بلنکن کے قریب ہونا اور وزیر ِ دفاع للوئڈ آسٹن  کا  عراق  جنگ  میں شامل ہونے والے ایک فوجی ہونا اس کی مثال کو تشکیل دیتا ہے۔ یہ شخصیات اپنے ناموں کے ساتھ یکسانیت اختیار کرنے والی  خارجہ پالیسی مفاہمتوں سے ہٹ کر’’ڈیوٹی مین‘‘ پروفائل کے ساتھ نمایاں ہیں، بائڈن کے خارجہ پالیسیوں کے شعبے میں  اپنے ذاتی کیریئر کو بھی مد نظر رکھنے سے اپنی ٹیم کے ساتھ ہم آہنگی کے ماحول میں  کام کرنے کا واضح طور پر مشاہدہ ہوتا ہے۔  اس نکتے پر بائڈن اور ان کی ٹیم کی خارجہ پالیسیوں میں ترکی کے ساتھ تعلقات  کس شکل میں ڈھلنے کا سوال ذہنوں میں اٹھتا ہے۔

پہلی نظر میں غور کرنے پر بائڈن کی خارجہ پالیسی ٹیم  کے ترکی سے متعلق معاملات سے مکمل طور پر آگاہی ہونے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ روس، شام، مشرقی بحیرہ روم، نیٹو، ایس۔400 او ر ایران   ان میں نمایاں ہیں ۔ مذکورہ شخصیات نے تا حال ترکی کے ساتھ باہمی تعلقات میں ’’سخت گیر مؤقف‘‘ کے حامل ہونے  کے حوالے سے کوئی  بیان جاری نہیں کیا۔ حتی  ان شخصیات کے ابتک  کے ترکی کے بارے میں بیانات  کے طرز اور تفصیلات کا جائز ہ لینے سے امریکی  پالیسیوں کو حق بجانب ٹہرانے والی اور نیٹو  کے اتحادیوں  کے ساتھ  مل جل کر کام کرنے کی  مفاہمت پیش پیش  دکھائی دیتی ہے۔ 15 جولائی کے بعد بائڈن کے ہمراہ ترک قومی اسمبلی کا دورہ کرنے والے بلنکن  کے سال 2017 میں ٹرمپ  کو وائے پی جی کو اسلحہ فراہم کرنے   پر زور دینے والی ایک شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔

سینٹ کی نشست میں ترکی   کی روس سے ایس۔400 میزائل دفاعی نظام کی خرید کے معاملے میں’’  ناقابل ہونے   کا کہنے والے بلنکن کے طرز ِ بیان کو  کانگرس میں اینٹی ۔ترکی  فضا کو مطمئن کرنے کے طور پر تصور کیا گیا۔ اسی نشست میں  ترکی کا ’نام نہاد‘ اتحادی کی شکل میں  ذکر ان کے ترکی سے متعلق مؤقف  کے بارے میں بعض اشارے  دیتا تھا۔ تا ہم  اس کے باوجود  بلنکن کا تا حال ترک ہم منصب سے رابطہ قائم نہ کرنا  واشنگٹن محاذ  میں احتیاطی فضا کے حاوی ہونے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ قومی سلامتی مشیر سولیوان  کے یورپی ہم منصبوں سے بات چیت کے بعد بیانات میں  ترکی کا یورپ کے ہمراہ کام کرنے کی ضرورت ہونے والے ’’مشترکہ خدشات‘‘ مسئلے کے طور پر چین کے ساتھ  تذکرہ کرنا  بھی ایک منفی مؤقف کی مثال پیش کرتا ہے۔ صدارتی ترجمان ابراہیم قالن کے ساتھ بلنکن کی ٹیلی فون پر بات چیت بھی  ابھی تک غیر واضح فضا کے مکمل طور پر  دور ہونے کا کہنا نا ممکن ہے۔

ابتک ترکی  کے لیے فاصلہ رکھنے والی اور سرد مہری کے حامل مؤقف کا مظاہرہ کرنے والی خارجہ پالیسی ٹیم  کے شام، وائے پی جی، ایس۔400، فیتو، مشرقی بحیرہ روم اور لیبیا جیسے معاملات میں بائڈن کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔تا ہم  ترک۔ امریکی تعلقات  میں مسائل کے حامل شعبہ جات  میں امریکی انتظامیہ کے موجودہ طرز  کے تعمیری پیشرفت سامنے نہ لانے کا مشاہدہ ہو تا ہے۔ اگر بائڈن انتظامیہ  نے  اوباما اور ٹرمپ انتطامیہ کے آمیزے پر مشتمل غیر واضح اور حکمت عملی سے محروم خارجہ پالیسی اپنائی تو   اس صورت میں دو طرفہ تعلقات کے معمول پر آنے کا معاملہ  کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔



متعللقہ خبریں