تجزیہ 54

کورونا وبا کے باعث گزشتہ برس پس پردہ رہنے والے عالمی ایجنڈے کے اہم ترین معاملات پر ایک جائزہ

1560077
تجزیہ 54

اگر کورونا وائرس  کی وبا نہ ہوتی تو سال 2020 میں سب سے زیادہ بحث ہونے والے جیو پولیٹیکل  معاملات امریکہ کا افغانستان میں 19 برسوں بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پرآنا  اور برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی ہو سکتے تھے۔ ان دو واقعات کا چاہے کسی بھی زاویے سے جائزہ کیوں نہ لیں یہ قدر اہم پیش رفت کے طور پر بیان کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم کورونا وبا  سال 2020 بھر کے دوران عالمی سیاست کو گہرائیوں سے متاثر کرنے والے نتائج پیدا کرتے ہوئے گزشتہ سال ماضی کے بد ترین  سال  کے طور پر اعلان کیے جانے کا موجب بنا ہے۔

سامعین سیتا سیکیورٹی تحققیاتی  ادارے کے ڈائریکٹر  اسوسیئٹ پروفیسر مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔

وبا کا اس حد تک اہم ہونا عالمی نظام کو بری طرح متاثر  کرنے والی بعض پیش رفتوں  سے تعلق  رکھتا  ہے۔ وبا کے پہلے مرحلے پر کورونا وائرس  کے عالمی سیاست کو کافی حد تک متاثر کرنے کی خبروں  نے اپنی حاکمیت  قائم  رکھی۔ بعد ازاں  اس حوالے سے بیانات  نے ٹوٹے ٹکڑوں  کی ماہیت اختیار کر لی۔ اب جو حالات ہیں ان سے یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ تبدیلیوں کے بیانات  کی جگہ خدشات نے  لے لی ہے۔ خدشات  کے درمیان تفریق پیش کر سکنے والے تین عناصر  رسک، غیر یقینی اور مستقبل  سے متعلق ابہام ہیں۔

اس نئے عالمی اندیشے کے تین جو عناصر’جیوپولیٹک خدشہ‘ کے طور پر بیان کردہ ایک نئی صورتحال کو  جنم دے رہا ہے۔ خدشات  کسی مشترکہ اندیشے کا مفہوم رکھتے ہیں۔  رسک ، غیر یقنین اور ابہام  کا موجب بننے والا یہی اندیشہ ہے۔  اس حالات کو پیدا کرنے والی خدشے کی پہلی شکل عالمی نظام کے مستقبل  سے تعلق رکھتی ہے۔  عالمی نظام کے مستقبل  سے متعلق سب سے بڑا خدشہ  مغربی علاقوں سے  بلند ہو رہا ہے۔ مغرب کی حکمت عملی کی بالا دستی زوال پذیر  ہو گی تا ہم اس کی جگہ سٹریٹیجک بالا دستی  کا بھی قدرے ابہام کا شکار ہونا  مغرب میں اندیشوں کو بتدریج گہرائی دے رہا ہے۔

کورونا سے قبل  کے دور میں مغربی ممالک کے اند ر اور عالمی سطح پر ’بلا مغرب کے‘ کے طور پر منظر عام پر آنے والے اس خدشے نے  کورونا کی آمد کے ساتھ  کہیں زیادہ طول پکڑ لیا ہے۔ مغربی ممالک کی حکمت عملی کی بالادستی کو بحال کرنے کی جستجو  کے طور  بیان کردہ ’امریکہ واپس  لوٹ رہا ہے‘ مؤقف   سمیت  یورپ کی  ’سٹریٹیجک خود اختیاری‘  کی کوششیں  انہی خدشات سے نجات پانے کی جستجو پر مبنی ہیں۔

عالمی سسٹم کے مستقبل سے متعلق خدشات کو مزید طول دینے والا ایک دوسرا معاملہ  مغرب کے بعد کے نظام کے قیام  کے بعد قائم ہونے والے نظام کے طاقتور  ترین امیدوار چین کی طرح کے اداکاروں  کا مادی ومالی  طاقت   کے عناصر سے ہٹ کر کسی عالمی افق کو وضع  نہ کر سکنے  سے تعلق رکھتا ہے۔ عالمی موسمی تغیرات   سے لیکر مشترکہ عالمی مسائل کے بارے میں چین کی پالیسیاں  وسیع پیمانے کے سوالیہ نشانات اور شکوک و شبہات کو بھی  جنم دے رہی ہیں۔  مغرب کےبعد کی دنیا  کے لیے تیاریاں کرنے کے معاملے میں زیادہ لچکدار  ہونے والی درمیانی و اعلی سطحی صنف میں اپنا مقام بنانے والے اداکاروں کی  صورتحال   کو بدلنے والی کوششیں بھی مغربی نژاد ان جیوپولیٹک خدشات کو مزید گہرائی سے دو چار کر رہی ہیں۔

اس جیو پولیٹک خدشے جو مزید طول دینے والا ایک دوسرا معاملہ  رسک کی اقسام  اور نوعیت سے تعلق رکھتا ہے۔ کورونا وبا  سے پیدا ہونے والی عالمی صحت کے خطرات دہشت گردی   کا منبع ہونے والے خطرات سے  کہیں زیادہ بڑھ کر  ہیں۔ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن  یہ کسی دوسری عالمی وبا کا موجب بن  سکنے والی حرکات  اور طاقت کی مالک نہیں ۔  غیر یقینی کی یہ صورتحال رسک کی سطح کو بلند کر رہی ہے تو  اس کے ساتھ یہ کرہ ارض کے نظام  پر ایک بار پھر سوالیہ نشانات کھڑی کر رہی ہے۔ سرحدیں مقرر نہ ہونے والا خطرہ جیو پولیٹکل خدشات کو عالمی ماہیت  دلانے کا موجب ہے۔  تا حال جاری فوجی جھڑپیں، بین الامملکتی کشیدگیاں  جیوپولیٹیکل  اندیشوں پر قابو پانے میں مشکلات پیدا کر رہی  ہیں تو  یہ مملکتوں کو مستقل مزاج پالیسیاں مرتب کرنے پر مجبور بھی کر رہی ہیں۔ لہذا کورونا وبا کے بعد کی  دنیا کاتصور پیش کر سکنے والا اہم ترین   عنصر جیو پولیٹکل خدشات   کے طور پر نمایاں  ہے۔

 

 

 



متعللقہ خبریں