لب آب سے آئی تہذیب

02.12.20

1537717
لب آب سے آئی تہذیب

یہ شہر تین طرف سے پانی میں گھرا ہے  جو کہ خلیج،آبنائے مارمرہ اور سرائے بورنو   پر مشتمل ایک تکونی شکل میں واقع ہے۔ قدیم ادوار سے اس شہر کی اہمیت مقدم رہی ہے ۔ اپنی ساڑھے آٹھ ہزار سالہ تاریخ  سے یہ شہر اب استنبول کہلاتا ہے جس کی تسخیر کے لیے نہ جانے کتنی جنگی  ہوئیں اور تہذیبوں کی تبدیلی اس کا مرکز بنی رہیں۔ یہ شہر تاریخ میں اپنا نام کماتا رہا  جس  پر لاتعداد فلمیں بنیں اور متعدد کتابوں اور اشعار کا مرکزی خیال اخذ کیا گیا ۔یہ شہر فنکاروں،ادیبوں اور سیاست دانوں کا محور رہا ہے جو کہ بہتر معیار زندگی کی دوڑ میںشامل ہونے والوں کے لیے بھی مثالی نمونہ بنتا آ رہا ہے۔
 تین سلطنتوں کا صدر مقام ہی شہر مختلف تہذیبوں کا گہوارہ بھی رہا ہےجسے  قلیل وقت میں بتانا ممکن نہیں  البتہ اس کی سیر کرتےہوئے  جاننا کافی آسان ہو جاتا ہے۔ اگر اب تک استنبول نہیں دیکھا تو  پیلی فرصت میں اس حسین شہر کی گہا گہمی اور تاریخ کا لمس محسوس ضرور کریں یہ ہماری تجویز ہے۔آج اس پروگرام میں ہم استنبول اور پانی سے  وابستہ تہذیب کا ذکر  کریں گے۔

  اپنے قیام سے ا ب تک یہ شہر گنجان آباد  رہا ہے  جہاں  پانی کی ضرورت بھی توجہ طلب رہی ہے جو کہ دفاعی لحاظ سے  بھی زیادہ اہم رہا ہے اس پر  شہر کی آبادی میں روز بروز اضافے نے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ کر رکھا ہے۔اس شہر کے اطراف میں میٹھے پانی کے وسائل کی کمی رہی ہے،زیر زمین وسائل آب  کے ذریعے مختلف  حوض،تالاب  اور نل وغیرہ  تعمیر کیے گئے جو کہ  دور دراز کے علاقوں سے پانی یہاں پہنچانے کا کام کرتے تھے۔رومیوں نے  پانی کے لیے نالیاں بنائیں جنہیں ذخیرہ کیا جاتا  رہا  اور پھر وہاں سے  حماموں  اور دیگر سرکاری  عمارتوں میں اسکی تقسیم ممکن بنائی گئی۔ اسی وجہ سے رومیوںکا دور پانی کی تقسیم اور نظام کے حوالے سے اہم مانا جاتا ہے۔
 شہر کے پانی کی ضروریات پوری  کے لیے رومی شہنشاہ حادیانوس کے دور میں کافی ترقی ہوئی،جبکہ استنبول کو صدر مقام  بنانے میں اہم شخصیت کوستانتین نے  اس شہر کو دوبارہ سے تعمیر کروایا۔کوستانتین  نے صاف پانی کی فراہمی کو اہمیت دی اور یہاں نئے حمام،چشمے اور نل لگوائے۔
 کوستانتین کی وفات کے بعد  شہنشاہ  والینس کے دور میں بڑھتی آبادی کو مد نظر رکھتےہوئےپانی کی طلب میں بھی اضافہ ہوا مگر اس نے خاص توجہ نہ دی  اور  بالاخر  تھریس کے علاقے سے پانی لانے کا انتظام کیا گیا ۔تھریس کا علاقہ بارانی موسم کی تبدیلی کی وجہ سے ہمیشہ غیر متوقع رہا ہے  یعنی  پانی کی مقدار میں کمی یا زیادتی کا تعین بارشوں  ر انحصار کرتا تھا لہذا  پانی کو شہر تک لانے اور اسے ذخیرہ کرنے کا معاملہ در پیش  رہا جس کے لیے رومیوں نے اپنی ذہانت کا استعمال کرتےہوئے نالیاں اور چشموں کی تعمیر کو وسعت دی  اور ان  کےلیے پل بھی تعمیر کیے۔پانی کی تقسیم  کے لیے انہوں نے ایک نظام متعارف کروایا جسے مکسم کہا جاتا تھا جسے  دور عثمانی میں بھی رواج ملا۔

 استنبول کے آبی راستوں سے متعلق  سن دہزار کی دہائی مین کھدائی کی گئی جہاں سے معلوم ہوا کہ یہ  آبی راستے  پانچ سو اکیاون کلومیٹر طویل تھے جن کا  فاصلہ مشرقی و مغربی ترکی کے مجموعی محل وقوع کا  ایک تہائی تھا۔ رومیوں نے پانی کی دستیابی کے لیے ساٹھ کے قریب نالیاں اور سرنگیں تعمیر کیں جو کہ عالمی فن معماری   کی اہم کامیابی اور قدیم ادوار کی جدت پسندی کو ثابت کرتاہے۔
شہنشاہ والینس  کے نام پر ان نالیوں  کو مخاطب کیا جاتا رہا جنہیں دور حاضر میں بوزدوعان  نالی بھی کہا جاتا ہے   جو کہ نو سو ستر میٹر طویل ہے، والینس کی نالی نے رومی عہد کے علاوہ بازنطینی دور میں بھی پانی کی ضروریات کو پوراکیا۔ سلطان محمد خان الفاتح کے استنبول مین اس کی مرمت کی گئی    جہاں سے یہ پانی  پندرہ صدیوں سے  استنبول کو پہنچایا جا رہاہے۔
 رومی عہد  کی معماری بھی قابل دید ہے جو کہ استنبول  کی اہم تاریخی علامتوں میں گردانی جاتی ہے اور جو پرانی  تعمیرات  کے حوالے سے شہرت بھی رکھتی ہے کیونکہ اس کی فن تعمیر ایک اعلی نمونہ ہے۔ یہ نالی  استنبول کے عین وسط میں اور کافی مصروف گزر گاہوں کے قریب واقع ہے جس کی سیر کرتےہی اسے بنانے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہمارا فرض بنتاہے۔

 رومیوں نے پانی کو  صحت عامہ کے لیے ایک سرکاری خدمت کا درجہ دیا جس سے اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو گئی۔رومیوں نے آبی قلت کے شکار استنبول کو  اس کی فراہمی ممکن بنانے کےلیے سرنگیں ،نالیاں  اور پل وغیرہ تعمیر کیے جو کہ فن معماری کی عمدہ مثال رہے ہیں اور جن سے اس شہر کی تاریخ مزید دوبالا ہو گئی ہے۔
  پانی  کی مسلسل فراہمی کے لیے رومیوں نے  بہت   با کمال فن معماری کا سہارا لیتے ہوئے آنے والی  تہذیبوں پر  اپنے گہرے نقوش چھوڑے  ہیں۔اناطولیہ کا علاقہ  آبی  تعمیرات کے حوالے سے متعدد نمونوں کا مرکز ہے جو کہ  صدیوں سے   بنی نوع انسانوں کی آبی ضروریات کو پورا کر رہی ہیں۔

 



متعللقہ خبریں