تجزیہ 43

امریکہ میں صدارتی انتخابات کے ممکنہ نتائج پر ماہر کا جائزہ

1514881
تجزیہ 43

سیتا سیکیورٹی تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا امریکہ میں صدارتی انتخابات  اور ان کے بعد کی ممکنہ سیاسی پیش رفت پر جائزہ ۔۔۔

3نومبر 2020 کو سر انجام پانے والے امریکی  صدارتی انتخابات پر کورونا وبا نے صحیح معنوں میں  اپنی مہر ثبت کر رکھی ہے۔  ابتدائی برسوں کو اپنی ٹیم قائم کرتے ہوئے گزارنے والے ڈونلڈٹرمپ   متعدد عہدوں پر تعیناتی نہ پائے یا پھر تعینات کردہ افراد کو کچھ مدت بعد  برطرف کرنے پر مجبور ہوئے۔ قومی سلامتی معاملات میں تین مختلف  مشیروں کے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہونے والے ٹرمپ  کی خارجی امور اور دفاعی وزراکے معاملے  میں پالیسیاں بھی حسب منشا  کامیاب نہ ہو سکیں۔ اپنے پہلے دور صدارت کو سخت گیر خارجہ پالیسی بیانات کے ذریعے  پورا کرنے کی کوشش میں ہونے والے ٹرمپ کو اپنے عہد کے دوران اپنی کرسی سے ہٹائے جانے  پر مبنی تحقیقات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ سال 2016 کے انتخابات میں روس کے ساتھ ان کے تعلقات   ٹرمپ اور ان کی  انتخابی مہم ٹیم  کے لیے دردِ سر بنے رہے۔

عہدہ صدارت کے آخری ایام میں کورونا وبا سے نبرد آزما   رہنے والے ٹرمپ   اس وبا   کے باعث پیدا ہونے والے وسیع  اور سنگین مسائل کو حل کرنے میں بھی کامیاب دکھائی نہیں دیتے۔  در حقیقت  عام وبا سے پیشتر ملکی معیشت  کو بہتر سطح پر لانے والے اور امریکہ کو دوبارہ سے طاقتور بنانے  کے زیر مقصد سخت گیر تجارتی پالیسیوں  پر امریکی رائے دہندگان سے حمایت  حاصل کرنے  صدر ٹرمپ کو اب کورونا کے ساتھ کساد بازاری کی شکار  معیشت کے اصل ذمہ دار کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر ان کا حریف جو بائڈن  انتخابات سے قبل کیے گئے سرویز کے مطابق  ٹرمپ سے آگے دکھائی دے رہا ہے۔ انتخابات میں کس امیدوار کی فتح ہونے کا فی الحال تعین کرنا  ناممکن ہے تا ہم  چاہے کوئی بھی امیدوار اس میں کامیابی حاصل کرے،  عالمی سیاست کے وسیع پیمانے کی غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہونے کی توقعات قوی دکھائی دیتی ہیں۔

ٹرمپ  نے انتخابی مہم  بھر کے دوران امریکہ کو دوبارہ سے ایک عظیم مملکت  بنانے  پر مبنی ’’پہلے امریکہ‘‘ سلوگن کو دہرانے کو ترجیح دی  ہے تو  یہ عالمی سیاست میں امریکہ کے کس طرح کے کردار ادا کرنے کے حوالے سے وعدے بھی کر رہے ہیں۔ اگر ہم گزشتہ 4 برسوں کا جائزہ لیں تو عالمی سسٹم میں  کم کردار سنبھالنے والے اور اپنے اندر ہی رہتے ہوئے داخلی مسائل کو حل کرنے والے ایک امریکہ کی شبیہہ ہمارے سامنے آتی ہے۔  دوسری جانب بائڈن عالمی نظام کی جانب واپسی کا عندیہ دے رہے ہیں۔   امریکہ میں چاہے کوئی بھی امیدوار کامیاب ہو  اس مرحلے  پر تین اہم نکات  پر روشنی ڈالنا فائدہ مند ثابت ہو گا۔

ان میں سے پہلا نکتہ  عالمی سیاست میں نئی امریکہ پوزیشن  سے تعلق رکھتا ہے۔ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں امریکہ کے کورونا وبا کے اثرات کے باعث عالمی سیاست میں کہیں زیادہ سخت گیر مؤقف کو اپنانے کا احتمال قوی دکھائی دیتا ہے۔  اس سخت گیر پوزیشن   میں امریکہ اور چین کے مابین اقتصادی رقابت نمایاں ہے۔  ٹرمپ کے امریکہ کا بیرونی دنیا سے رابطہ کم کرتے ہوئے   کہیں زیادہ چین پر توجہ مرکوز دینے کا کہنا بھی ممکن ہے۔ اس احتمال کا  عمل پذیر ہونا امریکہ کی عالمی سطح پر ذمہ داریوں سے کہیں کم سطح پر دلچسپی  کا مفہوم رکھتا ہے ۔اقوام ِ متحدہ سمیت عالمی انتظامی اداروں اور امریکہ کے مابین  روابط اور کٹھ جوڑ اس سنیاریو کے مطابق  مزید کمزور پڑ سکتے ہیں  اور  اس طرح امریکہ عالمی نظام میں اپنے کردار کو محدود کر سکتا ہے۔

دوسرا  نکتہ  جو بائڈن کی کامیابی سے تعلق رکھتا ہے۔  جو بائڈن اپنے ملک کو عالمی سیاسی پس منظر پر دوبارہ سے  مضبوط بناتے ہوئے  عالمی  کردار کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی پالیسیاں وضع کر سکتے ہیں۔  جس سے امریکہ اور چین کے درمیان رقابت میں مزید سختی کے دعوے جنم  لے رہے ہیں۔ دوسرے معنوں میں یہ دونوں امیدوار  چین  کے ساتھ در پیش مسائل میں دلچسپی لینے پر مجبور ہو ں گے۔ تا ہم بائڈن کی کامیابی کی صورت میں  امریکی خارجہ پالیسیوں کے زیادہ فعال سطح پر رہنے کی توقع کی جانی چاہیے۔  بائڈن نے  انتخابی مہم کے دوران  عہدِ ٹرمپ میں زوال پذیر ی کا سامنا کرنے والے امریکی طاقت کا دوبارہ سے احترام   بحال کرنے پر مبنی روڈ میپ  کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے، یہ روڈ میپ امریکہ کے عالمی مسائل میں کہیں زیادہ دلچسپی لینے کا معنی  رکھتا ہے۔  جبکہ ٹرمپ کی اس سے ہٹ کر پالیسیاں کہیں زیادہ مؤثر نیٹو، اقوام متحدہ اور امریکہ    ڈپلومیسی پر محیط ہیں۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا دونوں احتمال میں  امریکہ وعدہ کردہ پالیسیوں میں ناکام بھی رہ سکتا ہے۔ ٹرمپ  کاعلیحدگی کی پالیسیوں  پر  عمل پیرا رہنا اور بائڈن کی عالمی پالیسیوں کو جاری رکھنے کی خواہش ایک ہی نکتے پر جا ملتی ہے۔  نہ  تو پیچھے قدم ہٹانا آسان ہے اور نہ ہی عالمی نظام پر دوبارہ سے کنٹرول سنبھالنا۔ اس بنا پر عالمی  سیاست امریکی انتخابات کے بعد قدرے گہما گہمی کی شکار رہے گی۔ اگر ان تمام تر عوامل میں  غیر یقینی کے ماحول کو جاری رکھنے والی عام وبا کو بھی شامل کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے تو عالمی سیاست کو  کہیں زیادہ وسیع پیمانے کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔



متعللقہ خبریں