تجزیہ 38

شام میں مداخل عالمی اداکاروں کی چالیں اور ترکی کا کردار ماہر کے قلم سے

1493319
تجزیہ 38

سال 2011 میں برپا ہونے والے  شامی انقلاب نے قدم بہ قدم محض ایک اندرونی  خانہ جنگی سے آگے نکلتے ہوئے علاقائی اور عالمی طاقت کی مرکزِ جدوجہد میں سے ایک کی ماہیت اختیار کر لی۔ ملکی سرزمین کی جدوجہد میں متعدد اداکاروں کی بیرونی مداخلت  کے ساتھ وکالتی جنگ کا دور شروع ہو گیا   تو  ان اداکاروں اور میدان میں ان کے عمل دخل میں  بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انقلاب  پیدا ہونے کے آغاز سے ہی پر استحکام ترین مؤقف کا مظاہرہ کرنے والے ترکی، روس اور ایران اس ضمن میں نمایاں رہے ہیں۔  ترکی شامی مخالفین کی حمایت کر رہا ہے  تو روس اور ایران  اسد انتظامیہ کا ساتھ دینے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ امریکہ شامی پالیسیوں  میں  غیر مستحکم مؤقف کا مظاہرہ کررہا ہے۔

سیتا  خارجہ  پالیسیوں کے تحقیق دان جان آجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔

شامی بحران کے ابتدائی برسوں میں امریکہ سمیت مغربی ممالک  نے  ملکی انتظامیہ کے برخلاف شامی مخالفین کی حمایت کی تھی تو  انہوں نے داعش کے ملک میں پاؤں جمانے اور روس کی مداخلت کے بعد مخالفین کی حمایت و تعاون  کو چھوڑ دیا۔امریکہ نے دہشت گرد تنظیم PKK کی شام میں شاخ وائے پی جی اور اس کے سیاسی بازو پی وائے ڈی  کے ساتھ عسکری تعاون قائم کرتے ہوئے  خاصکر ملک کے مشرقی علاقوں میں اپنا اثرِ رسوخ قائم کر لیا۔ گو کہ  دیگر مغربی ممالک شامی مخالفین کو جائز ڈھانچے کی نگاہ سے دیکھتے  ہیں  تو بھی انہوں نے ان کی ٹھوس طریقے سے حمایت سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

امریکہ شامی پالیسیوں میں زک زیگ کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔  اوباما کے دور میں  سرخ پٹیوں کا اعلان کرتے   ہوئے بار ہا اس سے پیچھے قدم ہٹایا  گیا تھا تو حالیہ ایام میں  اوباما کے دراصل روس  کے سال 2015 کے ماہ ستمبر میں شام میں فوجی مداخلت کرنے کے  لیے راہ ہموار کرنے کی حقیقت آشکار ہوئی ہے۔  ٹرمپ کے  دور میں امریکی فوجی دستوں کے علاقے سے انخلا کرنے کا ارادہ تشکیل پایا تھا تو بھی  وہاں پر مؤثر سینٹ کوم اور امریکہ کی مختلف  پالیسیوں نے ٹرمپ کو  مکمل طور پر انخلا کرنے  سے  باز رکھنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔  یہاں پر پیٹرول کے معاملے کو صدر ٹرمپ کے سامنے ایک اہم مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اسوقت  امریکی فوجیوں کا دریائے فرات کے مشرقی علاقے ریمے لان سے دیروز زور تک تیل کے وسیع ذخائر کے   حامل  علاقوں پر کنٹرول قائم ہے۔ علاوہ ازیں ایس ڈی جی  کی چھت تلے یہ وائے پی ڈی۔ وائے پی جی  دہشت گرد تنظیم سے تعاون کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

روس  شامی انتطامیہ کے ساتھ بعض مسائل در پیش ہونے کے باوجود اس سے تعاون پر عمل پیرا ہے۔ اس نے پورے ملک پر اسد انتظامیہ کا کنٹرول قائم ہونے کی ضرورت کا دعوی پیش کر رکھا ہے تو بھی  اس کے حقیقی معنوں میں ممکن نہ ہونے کے اندازہ کرتے ہوئے ترکی کے ساتھ سلسلہ آستانہ  کے ماتحت   بعض معاہدوں پر کار بند ہے ۔یہ ادلیب میں فوجی دباؤ قائم کرتے ہوئے ترکی  کو اپنے حق میں بعض اقدامات اٹھانے پر مجبور کر رہا ہے۔ ایک جانب سے تل رفعت اور منبج علاقوں سمیت وائے پی جی کے ساتھ مختلف سطح پر تعلقات پرقائم ہے ۔ علاوہ ازیں  امریکہ کے سامنے یہ دریائے فرات کے مشرقی کنارے پر خاصکر مالیکیہ اور  فش ہابور  پٹی  پر اہم سطح کی طاقت کے ساتھ نبرد آزما ہے۔ یہاں پر یہ اکثر و بیشتر گشتی کاروائیاں کرتے ہوئے براہ راست   امریکی فوجیوں کے آمنے سامنے آرہا ہے۔ یعنی یہ قدم بہ قدم امریکہ کو علاقے سے پسپا کرنے کے حربوں پر کار بند  ہے۔  روس کے لیے شامی علاقے میں اہمیت کا حامل ایک دوسرا معاملہ ایران کے ساتھ اس کی رقابت ہے ۔  یہ مخالفین  اور باقی ماندہ داعش کے وجود کے خلاف ایران کے ساتھ اتحاد پر برقرار ہے تو  بھی یہ ایک  طرف سے ایران کے کنٹرول اور اثرِ رسوخ کو کمزور بنانے کے  درپے بھی ہے۔ روس ملکی انتظامیہ پر  اپنے اثر کو ایران کے مد مقابل مظبوط بنانے کی کوششوں میں ہے۔



متعللقہ خبریں