تجزیہ 32
امریکہ اور دہشت گرد تنظیم وائے پی جی کے درمیان شامی پیٹرول کو نکالنے اور فروخت کرنے کے معاہدے پر ایک جائزہ
شامی پیٹرول کو وائے پی جی دہشت گرد تنظیم کے زیر کنٹرل علاقوں میں موجود کنوؤں سے نکالنے اور اس کی فروخت کے معاملے میں وائے پی جی اور امریکی فرم ڈیلٹا کریسنٹ انرجی نامی فرم کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر ترکی نے رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وساطت سے شام سے مکمل طور پر انخلا کی پالیسیوں کے بجائے بتدریج مزید پاؤ ں جمانے کا مقصد ہونے والے اس معاہدے نے ترکی کی شامی سرزمین کی سالمیت اور وائے پی جی سے متعلق خدشات کے حوالے سے در پیش سوالیہ نشانات میں مزید ایک کا اضافہ ہوا ہے۔ امریکی بیورو کریسی کی جانب سے ٹرمپ کو پیٹرول کے ذخائر کے تحفظ کے معاملے میں آمادہ کرنے والے ایک ماحول میں اس معاہدے کا منظر ِ عام پر آنا وائٹ ہاؤس کو بھی شام میں فوجی قیام کو جاری رکھنے اور مقامی شراکت دار کے طور پر وائے پی جی /پی کے کے سے تعاون کو جاری رکھنے کے معاملے میں کافی حد تک آمادہ کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
سیتا ، خارجہ پالیسیوں کے تحقیق دان جان آجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔
سال 2019 میں قائم ہونے والی ڈیلٹا کریسنٹ انرجی فرم علاقے میں تیل کی پیداوار کی اجازت ملنے والی پہلی لائسنس یافتہ امریکی فرم ہے۔ اس کے شراکت داروں میں امریکی تجربہ کار بیوروکریٹس کی شمولیت باعثِ توجہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شام میں تیل کے لیے ڈرلنگ کا کام تجربہ کار برطانوی فرم گلف سینڈز کے سابق منتظمین میں سے جان پی ڈوریئر جونیئر نامی شخصیت کی موجودگی بھی توجہ طلب پیش رفت ہے۔
در اصل امریکی لائسنس یافتہ فرم اور وائے پی جی کے مابین مذاکرات کے کچھ مدت سے جاری ہونے سے ہر کس آگاہ تھا۔ در حقیقت ماضی کے ادوار میں اس معاملے میں متعدد فرمو ں اور ممالک کا نام سامنے آیا تھا۔ لیکن یہ کہنا ممکن ہے کہ اس معاملے میں نمایاں اور حتمی مؤقف امریکہ نے ہی اپنایا ہے۔ شام کی نشاطِ نو کے معاملے میں مالی وسائل کی نظر سے دیکھے جانے والے اور ترکی کی جانب سے زیر لب لائے جانے والے پیٹرول کے وسائل امریکی کاروائیوں کی بدولت وائے پی جی/ پی کے کے اس معاملے میں خود کفیل بننے کی راہیں ہموار کررہے ہیں۔ اس ضمن میں ترک دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیانات کچھ یوں ہیں: ’’ وائے پی جی/ پی کے کے دہشت گرد تنظیم نے اس اقدام کے ذریعے شامی عوام کی ملکیت قدرتی وسائل پر قبضہ جماتے ہوئے علیحدگی پسند ہونے کے ایجنڈے کو مزید آگے بڑھانے کا کھلم کھلا مظاہرہ کیا ہے۔ شام کے قدرتی وسائل شامی عوام کی ملکیت ہیں۔ ہم متحدہ امریکہ کے بین الاقوامی قوانین کو نظر ِ انداز کرنے والے، شامی زمینی سالمیت، اتحاد و حاکمیت کو نشانہ بنانے والے اور دہشت گردی کو اس طریقے سے مالی اعانت فراہم کرنے والے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں۔‘‘
اس پیش رفت کے بعد یہ کہنا ممکن ہے کہ ترکی اس مرحلے کے بعد میدان میں تبدیلیاں لانے کا تقاضا ہونے والے عسکری حربوں کو اپنانے پر مجبور ہو سکتا ہے۔